ہفتہ‬‮ ، 11 جنوری‬‮ 2025 

نیپرا کی سالانہ رپورٹ نے سرکاری پاور سیکٹر کے منتظمین کو مشتعل کر دیا

datetime 1  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) نیپرا کی سالانہ رپورٹ برائے 2014 اور 15ءنے سرکاری پاور سیکٹر کے منتظمین کو مشتعل کر دیا ہے اور ان کی رائے ہے کہ رپورٹ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نیپرا کو اپنی قانونی ذمہ داریوں کا علم ہی نہیں۔ سرکاری پاور سیکٹر کے ذرائع نیپرا کی رپورٹ سے پریشان نظرآتے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ نیپرا نے تمام تر ملبہ دوسروں پر ڈال دیا ہے حالانکہ ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے تحت الیکٹرک پاور سروسز یعنی کہ ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ برائے 1997ءکی شقوں پر عملدرآمد اور ان کی نگرانی کی تمام تر ذمہ داری نیپرا کی ہے۔جنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ نیپرا کا قیام اسی قانون کے تحت عمل میں آیا ہے اور لہٰذا پاکستان کے پاور سیکٹر کے جو بھی حالات ہیں ان کے حل کی ذمہ داری نیپرا پر عائد ہوتی ہے اور دوسروں پر ذمہ داری عائد کرنے کی وجہ بہت ہی سادہ سی ہے اور وہ یہ ہے کہ نیپرا کے چیئرمین اور اس کے ممبران نا اہل ہیں جس کی وجہ سے انہیں پاور سیکٹر کی حرکیات کی سمجھ بوجھ ہی نہیں ہے۔ ان ذرائع نے نشاندہی کی ہے کہ نیپرا نے اپنی سالانہ رپورٹ میں تمام تر توجہ صارفین کے فائدے کیلئے پاور سیکٹر میں بہتری کی بجائے ملازمین کی سرگرمیوں میں بہتری، اور جمنازیم اور کیفیٹیریا کے قیام پر دی ہے۔ اسی طرح کراچی الیکٹرک (کے الیکٹرک) کے معاملے میں نیپرا یہ بات بھول گیا کہ کے الیکٹرک کی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنے کی نگرانی نیپرا کی ہے اور جب بھی نیپرا نے کے الیکٹرک کے مختلف برسوں کے ٹیرف کا جائزہ لیا تو وہ اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے میں ہر مرتبہ ناکام رہا۔ نیپرا نے کراچی الیکٹرک کو ہر مرتبہ اچھی کارکردگی کی رپورٹس جاری کیں، حالانکہ جب بھی ضرورت ہوتی تھی اس وقت کراچی الیکٹرک کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے جس کی مثال رواں سال کا ماہِ رمضان بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق، رپورٹ میں نیپرا نے کراچی الیکٹرک کو دوسرا نمبر دیا ہے حالانکہ بجلی کی 6 تقسیم کار کمپنیوں کے مقابلے میں کراچی الیکٹرک کے لائن لاسز زیادہ ہیں اور ساتھ ہی صارفین کی سب سے زیادہ شکایات کے الیکٹرک کے خلاف ہیں۔ سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ رواں سال ماہِ رمضان میں شدید گرمی کے نتیجے میں ہونے والی 800 ہلاکتوں کے باوجود نیپرا کے ہاتھ کے الیکٹرک کو دوسرا نمبر دینے کے معاملے میں نہ کانپے، معاشرے کے کچھ حلقوں کی جانب سے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری کے الیکٹرک پر بھی عائد کی گئی تھی۔ ان ذرائع نے سابق ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ندیم الحق کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست کا بھی حوالہ دیا؛ اس پٹیشن میں نیپرا کے چیئرمین اور اتھارٹی کے ممبران کی تقرری کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ برائے 1997ءکی شق (3) 3 کے تحت ”ادارے کا چیئرمین ایک پیشہ ور شخص ہونا چاہئے جس کی شہرت اور ساکھ اچھی ہو، جس کے پاس قانون، بزنس، انجینئرنگ، فنانس، اکاﺅنٹنگ، معیشت یا پھر پاور انڈسٹری کے شعبے میں 20 سال کا تجربہ ہو۔“ تاہم، سالانہ رپورٹ برائے 2014 اور 15ءکے مطابق چیئرمین ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہے جس کے پاس بظاہر پاور انڈسٹری کا 13 سال کا تجربہ ہے، یہ تجربہ نیپرا کے ایک رکن کے مقابلے میں نہ صرف ایک سال کم ہے بلکہ قانون کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ اسی طرح، ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ برائے 1997ءکی شق نمبر (4) 3 میں لکھا ہے کہ ”ادارے کے رکن کیلئے لازمی ہے کہ وہ اچھی ساکھ اور اہلیت کا حامل ہو اور اس کے پاس قانون، بزنس، انجینئرنگ، فنانس، اکاﺅنٹنگ، معیشت یا پھر پاور انڈسٹری کے شعبے میں 15 سال کا تجربہ ہو۔“ یہاں بھی بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نمائندگی کرنے والے ارکان یا تو ریٹائرڈ فوجی افسران ہیں یا پھر ایسے سرکاری ملازمین ہیں جن کے پاس تجربہ نہیں یا پھر انہیں پاور سیکٹر کا بہت کم تجربہ ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ندیم الحق کی پٹیشن میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ چیئرمین اور چاروں ممبران کے تقرر کے معاملے میں طے شدہ قوائد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا۔ امیدواروں کے تقرر کے معاملے میں اشتہار کے اجراءکا کوئی نظام ہے اور نہ ہی موزوں امیدواروں تلاش کرکے انہیں منتخب کرنے کا کوئی میکنزم، تقرر سے قبل ان کی اہلیت کی جانچ پڑتال تو دور کی بات ہے۔ یہ بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی خلاف ورزی ہے جس کا اندازہ مختلف فیصلوں کو پڑھ کو ہوجاتا ہے۔ نیپرا کی رپورٹ میں بجلی کی پیدوار اور طلب کے فرق کو بھی جعلی قرار دیا گیا ہے۔ ریگولیٹری اتھارٹی نے یہ بھی بتایا ہے کہ حکمران جان بوجھ کر لوڈ شیڈنگ کر رہے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بجلی صارفین کے 70 فیصد میٹرز استعمال کے دورانیے (ٹائم آف یوز) کے معاملے میں خراب ہیں یا پھر پرانے ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں صارفین لٹ جاتے ہیں یا پھر حکومت منصفانہ رقم وصول کرنے سے محروم رہ جاتی ہے۔ نیپرا نے اپنی سالانہ رپورٹ میں وزارت پانی و بجلی کارکردگی پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ جان بوجھ کر پاور شارٹ فال اور لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے، سرکاری تھرمل پاور پلانٹس کی انتظامیہ جان بوجھ کر پاور پلانٹس بند رکھتی ہیں اور بجلی صارفین کے 70 فیصد میٹرز استعمال کا دورانیہ خراب ہے اور کچھ صارفین مصروف ترین اوقات کی ادائیگی کرتے ہیں اور کچھ کم مصروف اوقات کی ادائیگی کرتے ہیں۔



کالم



آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے


پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…