اورا ن کے خاندان کے پاس ہے، بجلی بحران حل نہ ہونے کی وجہ مسلم لیگ ن کی اندرونی چپقلش نہیں، مسلم لیگی طریقہ واردات ہے،مسلم لیگ ن کے اندر گروپنگ ہے، ایک گروپ چوہدری نثار اور ان کے حامیوں کا ہے، دوسرے گروپ میں خواجہ آصف اور ان کے حامی ہیں جبکہ تیسرا گروپ خوشامدیوں کا ہے، خواجہ آصف اور چوہدری نثار کی بات چیت برسوں سے بند ہے، اس چپقلش کا سب سے زیادہ نقصان امن و امان کی صورتحال کو ہوتا ہے۔ امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ بجلی منصوبوں میں بدانتظامی کا مسلم لیگ ن کی اندرونی چپقلش سے کوئی تعلق نہیں، توانائی کے معاملہ پر حکومت سنجیدہ نظر نہیں آرہی ، بجلی بحران کی ذمہ داری براہ راست وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب پر ہے، خواجہ آصف اور عابد شیرعلی کے پاس اس حوالے سے اختیارات نہیں ہیں۔ شہزاد چوہدری نے کہا کہ نندی پور پاور پراجیکٹ مسلم لیگ ن کے گلے کا پھندہ بن گیا ہے، شہباز شریف اور وزارت پانی و بجلی دونوں ہی اس پراجیکٹ کی ملکیت لینے کیلئے تیارنہیں ہیں، 2018ء کے انتخابات میں بجلی کے مسئلہ پر حکومت کا امتحان ہوگا، وزیراعظم کی کمزور لیڈرشپ مسلم لیگ ن کو لے ڈوب سکتی ہے۔ بابر ستار نے کہا کہ نواز شریف کوئی بھی ذمہ داری کسی ایک شخص کو دینے کے بجائے کئی لوگوں میں تقسیم کردیتے ہیں، حکومت بجلی بحران حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نہ ہی کوشش کررہی ہے۔ دوسرے سوال تحریک انصاف کو طالبان کی دھمکیاں ضمنی اور بلدیاتی انتخابات پر کس حد تک اثرانداز ہوں گی؟ کا جواب دیتے ہوئے امتیاز عالم نے کہا کہ تحریک انصاف کو طالبان کی دھمکیوں سے انتخابات میں کوئی خاص خطرہ نہیں ہوگا، طالبان کی تحریک انصاف کو دھمکی کا مطلب ہے طالبان بوکھلا گئے ہیں اور انہیں دوست دشمن میں تمیز نہیں رہی، تحریک انصاف نے ابھی تک طالبان کے بارے میں ایسی پوزیشن نہیں لی جس سے طالبان ناراض ہوں۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ طالبان سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد عمران خان کے موقف سے خوش نہیں ہیں، تحریک انصاف کو طالبان کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لینا چاہئے، طالبان ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی مہم پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔سلیم صافی نے کہا کہ طالبان کی تحریک انصاف کو دھمکیاں ڈرامہ لگتی ہے، طالبان پی ٹی آئی کے رہنمائوں پر اپنے خودکش بمبار ضائع نہیں کرے گی، پشاور اور گرد و نواح میں طالبان کو مکمل آزادی ہے اور صوبائی حکومت نے ان کا کچھ نہیںبگاڑا، خیبرپختونخوا کے تین چار وزراء مسلسل طالبان کو بھتہ دیتے آرہے ہیں۔ تیسر ے سوال نیشنل ایکشن پلان میں کس صوبائی حکومت کی کارکردگی بہتر رہی ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے امتیاز عالم نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان وفاقی ہے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن صرف کراچی میں نظر آرہا ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی ہی نہیں ہوئی، فاٹا میں کارروائی ہوئی لیکن وہ خیبرپختونخوا کا حصہ نہیں ہے، بلوچستان میں بھی مذہبی دہشتگردی کے بجائے قوم پرست تحریک کیخلاف کارروائی کی گئی ۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان میں بلوچستان حکومت کی کارکردگی بہتر ہے۔ شہزاد چوہدری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں بلوچستان کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی نظر نہیں آرہی، سندھ میں آپریشن میں سندھ حکومت کی شمولیت نظر نہیں آتی، پنجاب میں کارروائی شروع ہی نہیں ہوئی ہے، خیبرپختونخوا میں یہ سوچ ہی نہیں ہے، وہاں پر فوج کو آئوٹ سورس کردیا گیا ہے اور فوج فاٹا میں لڑ رہی ہے۔ بابر ستار نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان فوج کا تھا اور وہی اس پر عملدرآمد کررہی ہے۔ چوتھے سوال کیا یہ ممکن ہے کہ وزیراعظم کیخلاف توہین عدالت کیس، کتنا ممکن ہے کہ عدالت سے انہیںبھی علامتی سزا ہوجائے؟ کے جواب میں تمام تجزیہ کاروں کا متفقہ جواب تھا کہ وزیراعظم کو توہین عدالت کیس میں سزا نہیں ہوگی۔ امتیاز عالم نے کہا کہ عدالتی فیصلے ہمیشہ شریف خاندان کے حق میں اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہوئے ہیں۔ سلیم صافی نے کہا کہ نواز شریف کا تعلق پیپلز پارٹی یا کسی چھوٹے صوبے سے نہیں ہے اس لئے انہیں توہین عدالت کیس میں سزا نہیں ہوسکتی۔ بابر ستار کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے معاملہ میں توہین عدالت کا نوٹس ہی ایشو نہیں ہوا ہے، اسے پیپلز پارٹی والے معاملہ سے جوڑنا درست نہیں ہوگا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں