پیر‬‮ ، 18 اگست‬‮ 2025 

پاکستان‘ 2015ءمیں دی گئی پھانسیوں کی تعداد ایک دہائی میں سب سے زیادہ

datetime 11  ستمبر‬‮  2015
Px21-014 MACH: Dec21 - Men stands near place of hanging convicts which has been cleaned at Mach jail where 97 convicts are waiting for execution as the Prime Minister lifted ban on death penalty. ONLINE PHOTO by Ahmad Kakar
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ایک مو¿قر غیر سرکاری تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں سزائے موت پر سے پابندی اٹھائے جانے کے بعد سے اب تک پاکستان میں 232 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔یہ تعداد گزشتہ دہائی میں کسی بھی ایک سال میں دی گئی پھانسیوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔گزشتہ سال دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشتگرد حملے کے بعد سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔اس کا مقصد سزا یافتہ دہشت گردوں کی سزا پر عملدرآمد کرنا تھا مگر بعد میں دیگر جرائم میں موت کی سزا پانے والے مجرموں کی سزا پر بھی عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب تک جن مجرموں کو سزا دی گئی ہے ان میں سے اکثریت ان کی ہے جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ان کا مو¿قف ہے کہ ملک کا تحقیقاتی اور عدالتی نظام ناقص ہونے کے باعث بعض اوقات جرم کا ارتکاب نا کرنے والوں کو بھی سزا سنا دی جاتی ہے، جس پر عملدرآمد کے بعد اس غلطی کا کبھی ازالہ نہیں کیا جا سکتا لہٰذا حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔تاہم حکومت کا ماننا ہے کہ قانونی تقاضے پورے کرنے اور قابل قبول شواہد کی بنا پر ہی عدالتیں ایسے مقدمات میں سزائیں سناتی ہیں۔انسانی حقوق کی سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ”سزائے موت پر عملدرآمد سے دہشت گردی میں کمی نہیں آ سکتی کیونکہ اکثر دہشت گرد پکڑے نہیں جاتے۔ زیادہ تر خودکش حملوں میں ہی مارے جاتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں وہ محفوظ پناہ گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔“لیکن سرکاری طور پر فراہم کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے سنگین جرائم بشمول پشاور اسکول پر حملہ میں ملوث شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ 2008میں یورپی یونین نے پاکستان کو اپنی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک برآمد کے لیے ترجیحی درجہ ’جی ایس پی پلس‘ دینے کے لیے شرط عائد کی تھی کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر کرے۔اسی کے تحت پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق تین عالمی کے معاہدوں کی توثیق کرنے کے علاوہ سزائے موت پر عملدرآمد پر پابندی عائد کر دی تھی مگر اس سزا کو ختم کرنے پر اتفاق نہیں کیا تھا، جس کے بعد اسے 2013ءمیں جی ایس پی پلس کا درجہ دے دیا گیا۔حال ہی میں جرمنی کے وزیر خارجہ نے اپنے پاکستان کے دورے کے دوران اس مسئلے کو اٹھایا تھا مگر پاکستان کی طرف سے واضح کیا گیا کہ موجودہ حالات میں سزائے موت کو ختم کرنا ممکن نہیں۔وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے جرمن سفیر کے ساتھ اپنی پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دنیا میں نصف ممالک نے سزائے موت ختم کر دی ہے مگر نصف ممالک میں یہ سزا اب بھی رائج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں اسے ختم کرنا ممکن نہیں مگر حالات بہتر ہونے کے بعد ہم اس پر غور کر سکتے ہیں۔



کالم



وین لو۔۔ژی تھرون


وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…