اور اپنے اقدامات کا دفاع کرنا ہوگا اور اس کے بعد یہ بھی تفصیلی بریفنگ بھی دینا ہوگی کہ تفتیش اور تحقیقات کے دوران انہیں کیا کچھ معلوم ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے منصوبے سے بھی شرکاء کو آگاہ کریں لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ شرکاء پر رینجرز والے کتنا بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ وہ ناراض جماعتوں کو منا سکیں گے کیونکہ آرمی چیف کے مطابق آپریشن میں کسی کے خلاف بھی کارروائی پیچھے کی جانب نہیں جائے گی۔ تو یہ بات سیاست دانوں پر منحصر ہوگی کہ وہ اجلاس کے فیصلو ں کو مانتے ہیں یا نہیں۔ کرپٹ لوگوں، دہشت گردی میں ملوث افراد، انتہا پسند مذہبی گروپس اور ان کے مددگاروں اور ساتھیوں کے خلاف پنجاب میں کارروائی کے متعلق فیصلے وزیراعظم کیلئے اہمیت کے حامل ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے یہ معاملہ پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات اسلئے اہم ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم والے کسی حد تک کراچی آپریشن کو سندھ کے خلاف آپریشن ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ رینجرز اور فوج کو اس تاثر کی نفی کرنا ہوگی اور اس کا واحد طریقہ آپریشن کا دائرۂ کار اور شدت دیگر صوبوں اور تمام جماعتوں اور گروپس تک پھیلانا ہوگا۔ اس طرح پنجاب اور وفاقی حکومت پر زیادہ توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے اور وزیراعظم نواز شریف کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس حد تک اس دھیمی بغاوت کو اپنی حکمرانی میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ اسے دھیمی بغاوت کہنا مکمل طور پر بجا نہیں ہوگا لیکن ایسا ہی کچھ ہوا ہے کیونکہ سیاست دانوں نے، اپنے اقدامات اور غلطیوں سے ایسے خلاء بنائے