دبئی (نیوزڈیسک) بدھ کو وقوع پذیر ہونے والے تین اہم ترین واقعات کا اگرچہ ایک دوسرے سے تعلق نہیں ہے لیکن یہ واقعات ملک کی سیاست اور قسمت پر گہرا اور دور رس اثر مرتب کریں گے۔ اور اس کے ساتھ ہی لندن میں ہونے والی پیشرفت سے شاید ایم کیو ایم کے مسائل میں بھی اضافہ ہو جائے۔ ان میں سے ایک واقعہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ہیٹ ٹرک ہے لیکن اس کے مسلم لیگ (ن) پر زبردست اثرات مرتب ہوئے ہیں اور سمت ہی تبدیل ہوگئی ہے اور پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عدالتی راستہ چھوڑ کر عوام سے رجوع کرے گی اور کھوئی نشستوں پر دوبارہ الیکشن لڑے گی۔ عمران خان مسلسل عوام سے دوبارہ رجوع کرنے کا ہی مطالبہ کر رہے ہیں اور اس سے ان کے مقدمے کو تقویت ملی ہے۔روزنامہ جنگ کے صحافی شاہین صہبائی کے مطابق دوسرا اہم واقعہ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری ہے۔ وہ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں جنہیں ہر بڑے کام کیلئے استعمال کرتے تھے، کبھی پٹرولیم وزیر کے طور پر تو کبھی مشیر کے طور تو کبھی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا سربراہ بنا کر حتیٰ کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کے طور پر بھی۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے برسوں تک اپنے اسپتال میں زرداری کی خدمت کی ہے اور انہیں جیل کے عرصہ کےدوران اسپتال میں شاندار سہولتیں (فائیو اسٹار ٹریٹمنٹ) دیتے تھے اور اس کی وجہ سے وہ زرداری کے اتنے قریب آ گئے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ ان کے پرانے تعلقات پر دھند چھا گئی، اگرچہ کئی بار تو ایسا ہوا کہ انہیں سندھ کے گورنر کے عہدے کیلئے بھی متفقہ امیدوار کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اس کے بعد وہ زرداری کے بچوں کے محافظ بن گئے، لندن میں بلاول کی دیکھ بھال کرتے تھے اور لندن میں بینظیر زرداری خاندان کے مرکزی رابطے کی حیثیت سے انہوں نے تقریباً رحمان ملک کی جگہ سنبھال لی۔ اسی دوران، ڈاکٹر عاصم پر الزام لگا کہ ان کے پاس وسائل سے زیادہ دولت ہے اور یہی وہ پرانی باتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ اب پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان کی گرفتاری سے کراچی آپریشن میں اہم پیش قدمی کی عکاسی ہوتی ہے۔ آپریشن میں دہشت گردوں اور اقتصادی دہشت گردی، کرپشن اور جرائم پیشہ گینگز اور مافیاز کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس گرفتاری کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ آپریشن کا کا اگلا مرحلہ شروع ہو چکا ہے جس میں جرائم میں ملوث اہم شخصیات کو گرفتار اور احتساب کے دائر ے میں لایا جائے گا چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی یا گروپ سے ہو۔ آصف زرداری کے دوستوں، رشتہ داروں اور فرنٹ مین کی فہرست میں ڈاکٹر عاصم شاید تیسرے اہم شخص ہیں۔ اعلیٰ ترین نمبر شاید ادّی فریال اور آصف زرداری کا ہے۔ لہٰذا اگر سابق صدر اور ان کی بہن کے بعد تیسرے اہم ترین شخص کو گرفتار کیا گیا ہے تو ان کے نیچے کے نمبروں پر موجود افراد کو بچنے کیلئے بھاگنا پڑے گا یا پھر قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ایم کیو ایم کی کراچی آپریشن کے خلاف جاری مہم کیلئے بھی ایک بڑا دھچکا ہے۔ اب ایم کیو ایم کی جانب سے دی جانے والی اس بڑی دلیل میں جان باقی نہیں رہی کہ کارروائی میں صرف متحدہ قومی موومنٹ کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد صرف مہاجروں کیخلاف اقدامات کرنا ہیں۔ اگر زرداری کےقریبی ساتھی کو گرفتار کیا جا سکتا ہے اور نیب مسلم لیگ (ن) کے موجودہ حکمران رہنمائوں کے خلاف ایل این جی کیس کی تحقیقات کر سکتی ہے تو ایم کیو ایم شاید اپنا وزن بھی برداشت نہ کر پائے۔ جس دن جنرل راحیل شریف نے کرپشن اور مافیا کے درمیان تعلق کو توڑنے اور دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا اس کے اگلے ہی دن ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری سے منطقی انجام کا مقصد حاصل کرنے کی جانب سفر شروع ہو چکا ہے۔ تیسری چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ سندھ کے چیف سیکریٹری نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی اور ان کی درخواست منظور ہوگئی۔ اگر صوبے کا اعلیٰ ترین افسر (بیورو کر یٹ) خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے اور اسے ڈر ہے کہ کہیں اسے کسی کرپشن کیس میں نہ دھر لیا جائے تو ایسے میں صوبے کے انتظامی امور شاید جمود کا شکار ہوگئے ہوں۔ کون سا بیورو کریٹ اس نوعیت کا فیصلہ کرے گا جو متنازع ہو یا پھر عوام کے مفاد میں ہو۔ اسلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صوبہ معطلی کی حالت میں ہے۔ اس خطرے پر سونے پہ سہاگا یہ کہ ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ سندھ میں کرپشن کے خلاف کارروائی کیلئے تمام وفاقی اداروں کو ایک چھت تلے جمع کیا جا رہا ہے اور وہ مل کر مشترکہ تفتیش کریں گے تاکہ کسی بھی طرح کی وفاقی یا سیاسی نوعیت کی مداخلت کو روکا جا سکے۔ ایک اور بڑا واقعہ پاکستان میں نہیں بلکہ لندن میں پیش آیا ہے جہاں الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں ایک اور ملزم نے ایم کیو ایم کے ساتھ اپنا تعلق توڑ دیا ہے اور اب وہ تیز رفتار کارروائی یا فیصلے کے خواہاں ہیں۔ مسٹر سرفراز مرچنٹ کی جانب سے جمع کرائی جانے والی درخواست کے نتیجے میں ایم کیو ایم چیف پر دبائو مزید بڑھ جائے گا کیونکہ سرفراز مرچنٹ اب مایوس نظر آ رہے ہیں اور شاید بھانڈا پھوڑنا چاہتے ہیں۔ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا جلد بازی میں فیصلہ کرنے کے بعد پاکستان میں شدید پریشانیوں کا شکار ایم کیو ایم پر لٹکتی تلوار الطاف حسین کے جلد ٹرائل یا ان پر فرد جرم عائد ہونے کی صورت میں گر سکتی ہے اور اس سے پارٹی پر مزید مصیبتیں ٹوٹ پڑیں گی۔ ایم کیو ایم کو اب جلد فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی اور اسے یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ الطاف حسین کے متبادل اور جانشین کو جلد تلاش کرنا ہوگا۔ لندن میں فرد جرم عائد ہونے یا جیل جانے کی صورت میں الطاف حسین کا پارٹی پر کنٹرول رکھنا اور قیادت کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ان سب باتوں کا مطلب یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان الزامات اور تنقید کے مسئلے کو حل کر دیا ہے کہ کراچی آپریشن بلا امتیاز نہیں ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ کسی طرح کے سرکاری اور سیاسی دبائو کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف جاری آپریشن کی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ مثبت اور فوری نتائج بھی سامنے آئیں گے۔ صرف جو معاملہ اب بھی باقی ہے وہ ٹرائل کے عمل، ثبوتوں کو جمع کرنے اور فرد جرم عائد کرنے کا ہے اور یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔ جنرل راحیل نے اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے ملٹری کورٹس کی تعداد میں اضافے کی ہدایت دی ہے لیکن فوج تمام کیسز نہیں دیکھے گی۔ سویلین فوجداری عدالتی نظام کو بھی آگے بڑھانا ہوگا اور اسے موجودہ صورتحال کے مطابق اقدامات کرنا ہوں گے