اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) وفاقی حکومت کے مختلف محکموں کے ملازمین کی دو کیٹگریاں ہیں جن میں سے پہلی کیٹگری کے ملازمین معمول کی سرکاری تنخواہیں لیتے ہیں جبکہ دوسری کیٹگری میں آنے والے ملازمین کو خصوصی تنخواہ ملتی ہے جو دیگر محکموں اور ایجنسیوں میں موجود ان کے ساتھیوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتی ہے۔ دہرے معیار کا عالم یہ ہے کہ کم اثرو رسوخ کے حامل محکمے کے ایک ملازم کو سادہ سی تنخواہ ملتی ہے لیکن جیسے ہی یہ ملازم بااثر محکمے میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اس کی تنخواہ دگنی ہوجاتی ہے۔ ابتدائی طور پر خصوصی تنخواہ (دگنی تنخواہ) کا پیکیج صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کو ان کی ملازمت کی نوعیت اور قربانیوں کو دیکھتے ہوئے ہی دیا جاتا تھا۔ بعد میں یہ پیکیج پولیس ڈپارٹمنٹ اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو بھی دیا جانے لگا۔ بعد میں اسپیشل پے کی یہ اسکیم وفاقی حکومت کے ہر اس محکمے کو ملنے لگی جس کے پاس اپنے ملازمین کیلئے اتنا اثر رسوخ ہو کہ وہ ان کیلئے یہ خصوصی پیکیج منظور کروا سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے مختلف محکموں اور دفاتر میں موجود آدھے ملازمین کو معمول کی سادہ تنخواہ ملتی ہے جبکہ باقی ملازمین دگنی تنخواہ کے مزے لے رہے ہیں۔ بجٹ میں تنخواہ میں اضافے کی شرح کچھ بھی ہو لیکن ہر آنے والے بجٹ کے ساتھ یہ فرق پہلے کے مقابلے میں اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ جن ملازمین کو خصوصی تنخواہ ملتی ہے ان کیلئے تنخواہ میں اضافے کا فیصد حصہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ ایسے ملازمین کی تنخواہ میں عملاً بہت کم اضافہ ہوتا ہے جنہیں معمول کی تنخواہ میں فیصدی اضافہ ملتا ہے۔ یہ صورتحال ایسے محکموں اور وزارتوں کیلئے انتہائی پریشان کن ہے جو اپنے ملازمین کیلئے خصوصی تنخواہ کا پیکیج منظور نہیں کروا سکتے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، مسلح افواج، پولیس، رینجرز، فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ساتھ جن سرکاری ملازمین کو خصوصی تنخواہ (ڈبل پے) ملتی ہے ان میں مندرجہ ذیل اداروں کے ملازمین شامل ہیں: فیڈرل بورڈ آف ریونیو، سیکورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، نیشنل سیونگز، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی، نادرا، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، گورنمنٹ سروسز ہاسپٹل، کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، انٹیلی جنس بیورو، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، اوگرا، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، ارتھ کوئیک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن اتھارٹی، نیشنل کمیشن آف گورنمنٹ ریفارمز، پرائم منسٹرز انسپکشن کمیشن، بورڈ آف انوسٹمنٹ، صدارتی آفس، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی، موٹر وے پولیس، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پاکستان ہاﺅسنگ اتھارٹی، فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاﺅسنگ فاﺅنڈیشن، اٹارنی جنرل آف پاکستان، فیڈرل سروسز ٹریبونلز، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان، ہائر ایجوکیشن کمیشن، سینیٹ سیکریٹریٹ، سپریم کورٹ اور وزارت کامرس کے ماتحت کام کرنے والے دیگر ادارے اور ایجنسیاں۔ مذکورہ بالا محکموں اور ایجنسیوں کے ملازمین کے علاوہ، فیڈرل سیکریٹریٹ دیگر وزارتوں اور ڈویژنوں کے ملازمین اور کچھ دیگر ملازمین کو 100 فیصد اسپیشل الاﺅنس نہیں مل رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یکے بعد دیگر آنے والی حکومتوں نے مخصوص محکموں کے ملازمین کو خصوصی تنخواہ دینے کیلئے کوئی فارمولا نہیں بنایا۔ سرکاری محکموں کی اکثریت ایسی ہے جنہیں کسی اور خصوصیت کی بجائے ان کی نا اہلی اور کرپشن کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ صورتحال نیشنل کاﺅنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (نیکٹا) جیسے اداروں کیلئے مشکلات کا سبب بن رہی ہے کیونکہ یہ ادارہ کچھ اچھے پولیس افسران کو اس ادارے میں مقرر کرانا چاہتا ہے لیکن پولیس افسران کی اکثریت نیکٹا میں شمولیت سے صرف اس وجہ سے انکاری ہیں کہ انہیں اپنی دگنی تنخواہ سے ہاتھ دھونا پڑے گا جبکہ نیکٹا اپنے ملازمین کو معمول کی تنخواہیں دے رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق، حکومت کی جانب سے اپنے ملازمین کو دیئے جانے والے یہ مختلف پیکیج امتیازی اور غیر قانونی ہیں۔