اسلام آباد(نیوزڈیسک)پاکستان کی مجموعی پیداوار میں ٹیکسوں کی شرح دس فیصد کے قریب ہے جو دنیا میں کم ترین شرح میں سے ایک ہے اور ملک میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ملک کی مجموعی پیداوار میں ٹیکسوں کا حصہ 9 سے 11 فیصد کے درمیان رہا ہے۔حال ہی میں وزیرِ اعظم نواز شریف نے حکومت کی اقتصادی ٹیم سے کہا کہ وہ ایسا نظام وضع کرے جس سے بدعنوانی میں کمی ہو اور لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کریں۔ تاہم جہاں ٹیکس اکٹھے کرنے والے اداروں کی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں عوام میں منفی تاثر پایا جاتا ہے وہیں عوام میں اپنی شہری ذمہ داریوں کا احساس کمزور ہے۔ ملک میں درمیانے درجے کے لاکھوں کاروباری ادارے اور افراد اپنی آمدن پر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ٹیکس ادا نہ کرنے سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے کہا کہ حکومت ملکی ترقی کے بڑے منصوبے اس لیے شروع نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے وسائل محدود ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کی بہت کم تعداد ٹیکس ادا کرتی ہے۔” ترکی کی مثال لیں تو وہاں مجموعی پیداوار میں ٹیکس کی شرح 35 فیصد ہے، چین میں یہ 30 فیصد کے لگ بھگ ہے، بھارت میں 20 فیصد کے قریب ہے۔ پاکستان میں شرح دس فیصد سے بھی کم ہے، اس لیے ترقیاتی کاموں کے لیے پیسہ مختص کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔“جب عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے تو حکومت کو ملک کا کاروبار چلانے کے لیے قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے لیے جانے والے قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ملکی بجٹ کا ایک تہائی سے بھی زیادہ حصہ قرضوں کی ادائیگی لیے خرچ ہو جاتا ہے۔پاکستان کے سابق وزیر تجارت اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محمد زبیرایک غیرملکی خبررساں ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے وزیرِ اعظم نواز شریف اور دیگر عہدیداروں کو ٹیکس ادا کر کے خود مثال قائم کرنی چاہیئے۔”سب سے پہلے وزیرِ اعظم صاحب، ان کی پارٹی اور کابینہ اور تمام ممرانِ اسمبلی کو قوم کو یہ دکھانا چاہیئے کہ وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے 2013ئ میں ایک ٹیکس ڈائریکٹری شائع کی تھی جس میں تمام ٹیکس دینے والوں کے نام اور ان کی ادائیگی کی تفصیل تھی۔ چند ممران نے جو ٹیکس بھرے وہ ان کے ظاہری اثاثوں اور دولت کی نسبت بہت کم تھے، جس میں ہمارے وزیرِ اعظم بھی شامل ہیں۔ جب سیاسی لیڈر خود ٹیکس نہیں دیں گے تو وہ اور لوگوں سے کیا توقع کریں گے۔“انہوں نے ٹیکس وصول کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بجائے مزید لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے، یہ ادارہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو غیر قانونی طور پریشان کرتا ہے۔”ہمارے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو سختی کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہنا چاہیئے تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور جو ٹیکس نہیں دے رہے ان کو ہرگز نہ چھوڑے۔“وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ حکومت ملک کی مجموعی پیداوار میں ٹیکسوں کی شرح کو بڑھائے گی اور گزشتہ مالی سال میں تقریباً ایک لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا گیا ہے۔