پشاور(نیوز ڈیسک)پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ بہتر حکومتی حکمت عملی کے باعث گذشتہ چند ماہ کے دوران صوبہ بھر میں انسدادِ پولیو کے قطروں سے انکار کرنے والے والدین کی تعداد میں 50 سے 60 فیصد تک کمی آئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق پشاور میں انسداد پولیو کیلیے بنائے گئے وزیراعلی خیبر پختونخوا کے مانیٹرنگ سیل سے جاری والے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال صوبے بھر انسدادِ پولیو کے قطروں سے انکار کرنے والے والدین کی تعداد 47000 رہی تھی۔ تاہم حالیہ چند مہنیوں کے دوران اس تعداد میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔مانیٹرنگ سیل کے مطابق رواں برس جنوری میں انکاری کیسز کی تعداد 34993 رہی ، فروری میں23087 اور مارچ کے مہینے میں یہ مزید کم 15074 تک آئی ہے۔خیبر پختونخوا میں ہر مہم کے دوران 50 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔پشاور میں پولیو پروگرام آفیسر ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ بہتر حکومتی حکمت عملی کے باعث پولیو سے انکار کرنے والے بچوں کی تعداد رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے۔پہلی مرتبہ حکومت نے تمام اضلاع کی سطح پر مقامی عمائیدن اور بااثر افراد پر مشتمل جرگے تشکیل دیے ہیں جن کا کام انکار کرنے والے والدین سے مقامی روایات کے مطابق بات کرنا ہے۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ضلعی انتظامیہ، پولیس اور بین الاقوامی ادارے بڑی سنجیدگی اور تن دہی سے مل کر کام کررہی ہے جس سے اس موذی مرض کو قابو کرنے میں کامیابی مل رہی ہے۔ی مرتبہ حکومت نے تمام اضلاع کی سطح پر مقامی عمائیدن اور بااثر افراد پر مشتمل جرگے تشکیل دیے ہیں جن کا کام انکار کرنے والے والدین سے مقامی روایات کے مطابق بات کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو والدین بچوں کو پولیو قطرے دینے سے انکار کرتے ہیں ان سے پولیس اور جرگہ کے ذریعے سے بات چیت کی جاتی ہے اور اب تک اس حکمت عملی کے بڑے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔خیبر پختونخوا میں پشاور واحد شہر ہے جہاں انکاری کیسسز کی تعداد سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ مارچ کے مہینے میں ہونے والے انسداد پولیو مہم کے دوران 15 ہزار سے زائد افراد نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے دینے سے انکار کیا جن میں آٹھ ہزار کا تعلق پشاور سے تھا۔پشاور کے مضافاتی علاقے شیخ محمدی سے تعلق رکھنے والے زین اللہ اور اس کا خاندان بھی ان افراد میں شامل ہے جو کئی برسوں تک اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرتا رہا ہے۔ زین اللہ کے تین بیٹے ہیں جن کی عمریں ایک سال سے لے کر تین سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ وہ روزانہ کی اجرت پر کام کرتے ہیں اور گھر کے واحد کفیل بھی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی ایک بھابھی بچوں کو پولیو قطرے دینے کی بڑی مخالف تھیں تاہم وہ اب مرچکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 25جب ہماری بھابھی زندہ تھیں تو وہ پولیو کارکنوں کو گھر کے قریب بھی نہیں آنے دیتی تھی لیکن ان کے جانے کے بعد اب ہم نے اپنے تمام بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا شروع کیا ہے اور حالیہ مہم میں بھی ان کے تمام بچوں کو پولیو کے ویکسین پلائے گئے۔ جب ہماری بھابھی زندہ تھیں تو وہ پولیو کارکنوں کو گھر کے قریب بھی نہیں آنے دیتی تھی لیکن ان کے جانے کے بعد اب ہم نے اپنے تمام بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا شروع کیا ہے اور حالیہ مہم میں بھی ان کے تمام بچوں کو پولیو کے ویکسین پلائے گئے۔ادھر حکومت نے مختلف اضلاع میں پولیو قطروں سے انکار کرنے والے کئی والدین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج کرائے گئے ہیں۔ تاہم حکومت کی کوشش ہے کہ گرفتاریوں کی بجائے انکاری والدین کو جرگوں کے ذریعے سے قائل کیا جائے تاکہ امن و عامہ کا کوئی مسلہ پیدا نہ ہو۔پشاور اور اطراف کے علاقوں میں پہلے پولیو مہم انتہائی سخت سکیورٹی اور خوف کے عالم میں ہوا کرتے تھے۔ لیکن کچھ عرصہ سکیورٹی کی صورتحال کافی حد تک بہتر بتائی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں اور تمام مذہبی فرقے بھی پہلے کے برعکس اب بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی کھل کر حمایت کررہے ہیں جس سے مخالفت میں کمی آرہی ہے۔