اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان اور آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالرز کی موجودہ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے طریقہ کار طے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس ضمن میں یا تو باقی ماندہ تین جائزوں کا حجم بڑھایا جائے گا اور باقی حصے جاری کیے جائیں گے یا اس کے وقت میں ستمبر، 2022 تک توسیع کی جائے گی۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی خبر کے مطابق اعلیٰ حکام نے تصدیق کرتے
ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان کے لیے ای ایف ایف کے تحت آئی ایم ایف پروگرام کا حجم 4 ارب 26 کروڑ 80 لاکھ اسپیشل ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آرز) کی سطح پر برقرار رکھا جائے گا جو کہ 6 ارب ڈالرز سے زائد کے برابر ہے۔ جس میں کوٹہ حصہ 210 فیصد ہوگا۔حکام نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے حجم میں
کسی کمی کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف نے نئے میکرواکنامک فریم ورک قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ایسا دوسرے اور پانچویں جائزوں کو ملانے پر اتفاق اور آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ کی مارچ 2021 کے آخر تک صرف 50 کروڑ ڈالرز کی قسط کی منظوری کے فیصلے کے بعد کیا گیا ہے۔دوسرے
اور پانچویں جائزوں کی مشترکہ قسط 2 ارب ڈالرز کے بجائے 50 کروڑ ڈالرز کے اجرا کی سفارش آئی ایم ایف اسٹاف نے ایگزیکٹیو بورڈ کو دی ہے۔ ای ایف ایف کے اصل منصوبے کے تحت آئی ایم ایف کو 39 ماہ کی مدت کے پروگرام میں 6 ارب ڈالرز فراہم کرنے تھے، جس میں آٹھ جائزے مکمل ہونا تھے، جس کا
آخری 2 ستمبر، 2022 کو شیڈول ہے۔پانچواں جائزہ ابتدائی طور پر 5 مارچ، 2021 کو شیڈول تھا لیکن اب اس کی منظوری مارچ، 2021 کے اختتام متوقع ہے۔ حکام سے جب پوچھا گیا کہ آئی ایم ایف 2 ارب ڈالرز کے بجائے 50 کروڑ ڈالرز کی قسط کیوں جاری کررہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف
پروگرام کے تحت قرضوں کا حجم اہمیت نہیں رکھتا بلکہ آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل کرنا عالمی برادری کی نظر میں متعبر بناتا ہے۔دوسرا یہ کہ پاکستان نے بھی کوروناوائرس کی پھیلائو کے بعد کچھ شرائط پوری نا کرسکا، اسی لیے آئی ایم ایف نے ای ایف ایف قرض پروگرام کے تحت مطلوبہ رقم جاری
نہیں کی۔ تاہم، انہوں نے یاددہانی کروائی کہ وہ آئی ایم ایف ہی تھا جس نے کوروناوائرس کے پھیلائو کے بعد پاکستان کی معاونت کے لیے آر ایف آئی کے تحت 1.4 ارب ڈالرز فراہم کیے تھے۔عملی مقاصد کے لیے آئی ایم ایف نے 2 ارب ڈالرز کے قریب معاونت مارچ 2021 کے لیے فراہم کی ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف
نے میکرواکنامک اور مالیاتی فریم ورک میں تبدیلی پر بھی اتفاق کیا ہے، جس کے تحت جی ڈی پی نمو کا ہدف گزشتہ مالی سال کے منفی 0.4 فیصد کے مقابلے میں جی ڈی پی کا 1.5 فیصد رکھا جائے گا۔ایف بی آر کے ہدف میں بھی نظرثانی کرکے کمی کی گئی ہے اور رواں مالی سال کے لیے یہ ہدف 49 کھرب 67
ارب روپے سے کم کرکے 47 کھرب 50 ارب روپے کیا گیا ہے لہٰذا بجٹ خسارہ بھی جی ڈی پی کے 7 فیصد کے ہدف سے بڑھ جائے گا۔آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے ٹیکس ہدف کو آئندہ بجٹ کے لیے 59 کھرب روپے کے قریب کرنے کا کہا ہے، جس کے لیے انکم اور سیلز ٹیکس استثنا ختم کرنے کا کہا ہے۔ اخراجات کے
حوالے سے حکومت نے آئی ایم ایف کو تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے لیے راضی کرلیا ہے۔اس اضافے کی سفارش پے اینڈ پنشن کمیشن نے کی تھی جو کہ سابق بیوروکریٹ نرگس سیٹھی کی سربراہی میں کام کررہا ہے۔آئی ایم ایف نے اپنے اعلامیے میں اشارہ دیا تھا کہ کوروناوائرس کی وجہ سے میکرو
اکنامک پالیسی کا محتاط جائزہ لینا ہوگا، اصلاحات کلینڈر اور ای ایف ایف جائزہ شیڈول کو محتاط انداز میں دیکھنا ہوگا۔اہداف کے حصول کے لیے خرچوں کا محتاط انتظام اور ریونیو اقدامات کی ضرورت ہوگی، جس میں کارپوریٹ ٹیکسیشن میں اصلاحات تاکہ اسے مزید شفاف بنایا جاسکے۔پاور سیکٹر
کے منصوبے کا مقصد مالی عمل درآمد جو کہ مینجمنٹ میں بہتری، اخراجات میں کمی اور ٹیرف اور سبسڈیوں میں توازن سے حاصل کیا جائے گا تاکہ سوشل اور سیکٹورل اثرات کا حصول ممکن ہو۔