اسلام آباد،لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی)نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی عارف حمید بھٹی کا کہنا ہے کہ محمد علی درانی کو شہباز شریف کے پاس حکومت نے نہیں اسٹیبلشمنٹ نے بھیجا ۔تین دن پہلے بھی شہباز شریف سے کوئی ملاقات کے لیے گیا تھا۔
اس کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو کمرے سے باہر کر دیا گیا تھا۔پروگرام کے دوران عارف حمید بھٹی سے سوال کیا گیا شہباز شریف سے ملاقات کرنے والا سیاسی بندہ تھا یا پھر اسٹیبلشمنٹ کا بندہ تھا۔جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی بندے کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔کیا عمران خان نے اڑھائی سال اپنے ووٹ بینک پر گزارے۔اگر کوئی ق لیگ یا ایم کیو ایم کے کان میں کہہ دے کہ آپ آزاد ہیں تو ایک دن بعد حکومت ختم ہو جائے گی۔عارف حمید بھٹی نے دعوی کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو کہہ دیا ہے کہ بند گلی کی طرف نہ جائیں،چور ڈاکو چھوڑیں اور بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں، بھارت سر پر کھڑا ہے۔دریں اثنامسلم لیگ فنکشنل کے مرکزی رہنما محمد علی درانی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی کشمکش کم کرنے کیلئے غیرمحسوس کردار متحرک ہیں، یہ کردار اداروں سے ہوسکتے ہیں جبکہ لندن میں بھی ٹریک ٹو مذاکرات جاری ہیں،ٹریک ٹو ڈائیلاگ کا مقصد یہ ہے کہ نمود و نمائش کے بغیر
غیر محسوس طریقے سے ایک ایسی سرگرمی شروع کی جائے جو کسی نتیجے پر پہنچ سکے اور اس سرگرمی کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں وہ ادارے، وہ افراد، وہ شخصیات اور وہ سارے عناصر بھی شامل ہوں گے جو میڈیا کے سامنے نہیں آتے۔ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے
انہوں نے کہا کہ مجھے پوری توقع ہے کہ جب ایسے ڈائیلاگ ہوں گے جو نظر نہیں آرہے ہوں مگر ہورہے ہوں گے تو اس میں وہی لوگ شامل ہوں گے جو پرخلوص ہوں گے اور اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہوں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ جو غیرمحسوس کردار ہیں، کیا وہ سیاست میں
ہے یا اداروں میں ہیں۔ محمد علی درانی نے جواب دیا کہ نہیں، میں نے تو کہا ہے کہ سیاست سے ہٹ کر ہر شعبہ زندگی سے لوگ شامل ہوں گے۔ وہ اداروں سے بھی ہوسکتے ہیں،ملک کے اندر مختلف ایجنسیز کے ذریعے ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت سیاستدان ایک دوسرے کے
خلاف آنکھیں نکال کر جنگ کیلئے تیار بیٹھے ہیں، اس ماحول کو ختم ایک دن میں نہیں کیا جاسکتا،کسی میز پر بیٹھ کر اور کسی چھڑی سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایک غیر محسوس اور پر خلوص سرگرمی سے ہوسکتا ہے۔محمد علی درانی نے اس ڈائیلاگ کے ممکنہ نتائج گنواتے ہوئے کہا کہ
وہ استعفے جو جنوری میں آنے ہیں وہ موخر ہوجائیں گے۔ سینیٹ کے انتخابات جس کے بارے میں لگ رہا تھا کہ شاید نہ ہو پائیں وہ بھی ہوجائیں گے،اس کے نتیجے میں لانگ مارچ اور آخری ٹکرا کی صورتحال بھی آگے چلی جائے گی۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ یہ ٹریک ٹو لندن بھی
جائے گا یا نہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ لندن شاید چلا بھی گیا ہو، ضروری تو نہیں کہ ٹریک ٹو میں آپ کو لوگ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ جب یہ ماحول بنے گا کہ شدت کے رویے ٹھیک نہیں تو عمران خان اپنے رویے کی شدت کم کرلیں گے اور انہیں کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنے ذہن کے مالک انسان ہیں، وہ کبھی کبھی کسی کے سمجھانے سے نہیں سمجھتے، جب منفی نتائج نکلتے ہیں تو انہیں سمجھ آتا ہے کہ غلط کام ہوا ہے۔نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹریفک ٹو ڈائیلاگ کا آغاز ہو چکا ہے اور جن لوگوں نے اس بارے میں بیانات دیے ہیں وہ اس بات کی نشاندہی ہیں کہ مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔