اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پچھلے دنوں اجمل وزیر کو مبینہ آڈیو ریکارڈنگ لیک ہونے پر مشیر اطلاعات کے عہدے سےہٹادیا گیا ،انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کیخلاف سازش کی گئی ، روزنامہ جنگ میں گوہر علی خان کی شائع خبر کے مطابق اجمل وزیرپارٹی کی اندرونی سازشوں کا شکار ہونے والے پی ٹی آئی کے پہلے رہنما ہیں نہ ہی آخری۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کے سابق دور حکومت میں سابق صوبائی وزیر ضیا اللہ آفریدی پر اربوں کرپشن کے الزامات لگاکر وزارت اور پارٹی دونوں سے فارغ کرنے کے علاوہ کرپشن کے خلاف پارٹی کے بیانیے کو تقویت دینے کے لئے انہیں حوالات تک میں بند کردیا گیا مگر آج تک ان پر ایک بھی الزام ثابت کیا جاسکا نہ ہی کوئی رقم وصول کی جاسکی ،اسی طرح اپنے اتحادی قومی وطن کے بعض وزراءپر بھی کرپشن کا الزام لگاکر حکومت سے رخصت کیا گیا ،بات یہاں نہیں رکی جب پارٹی کے سابق وزیر صحت شوکت یوسفزئی نے پارٹی کے ایک مضبوط رہنما جہانگیر ترین کے مفادات پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف بھی بلاواسطہ کرپشن کی افواہیں پھیلاکر ان سے وزارت صحت کا قلم دان چھین لیاگیا۔ یہی کہانی آگے بڑھتے ہوئے پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت تک پہنچ گئی جس میں وفاقی سطح پر کچھ اسی قسم کے الزامات کے تحت وزیر اعظم کے سابق مشیر برائے پولیو بابر عطا کوبھی رخصت کیا گیا جس کے خیبرپختونخوا میں کرپشن کی بجائے اپنی ہی حکومت یا وزیر اعلیٰ کے خلاف سازش کا الزام لگاکر صوبائی کابینہ کے دو انتہائی سرگرم سابق صوبائی وزراءوزیر بلدیات شاہرام خان ترکئی اور وزیر کھیل عاطف خان کو گھر بھیج دیا گیا جبکہ اجمل وزیر سے قبل وزارت اطلاعات کا قلم دان شوکت یوسفزئی کے پاس تھا ۔
پارٹی کے اندر موجود مافیا نے انہیں اتنا تنگ کیا کہ موصوف کو خود وزارت چھوڑنے کی درخواست کرنی پڑی جس کے بعد اجمل وزیر چونکہ منتخب نمائندہ نہیں تھے اس لئے انہیں اطلاعات کا قلم دان سونپنے کے لئے وزیر اعلیٰ کا مشیر بنانا پڑا اور گزشتہ تقریباًچار ماہ سے وہ اس عہدے پر فائز تھے ان کی بدقسمتی تھی یا خوش قسمتی ان کے چارج لینے کے ساتھ ہی ملک میں کورونا وبا آئی اور اس حوالےسے وہ خاصے متحرک اور مصروف رہے۔
روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کو کورونا کے اعداد شمار اور حکومت اقدامات کے حوالے سے بریفنگ دینے کےسا تھ ساتھ بازاروں پر کورونا ایس او پیز کی مانیٹرنگ اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے میڈیا کو آگاہ کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔تاہم پارٹی کے اند ر موجود مافیا کو شائد ان کا یہ انداز بھی پسند نہیں آیا اور مذکورہ آڈیو ٹیپ کو جواز بنا کر انہیں بھی گھر بھیجنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں تک آڈیو ٹیپ اور اس میں ہونے والی گفتگو کا معاملہ ہے تو یقینا اس میں رقوم اور پرسنٹیج کے حوالے سے گفتگو موجود ہے۔
جو سابق مشیر اجمل وزیر اور ایک اشتہاری ایجنسی کے مالک کے درمیان ہوئی ہے مگر دونوں سے گفتگو میں کسی کی کمیشن دینے یا وصو ل کرنے کے حوالے سے ترید کی ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ اصل معاملہ کچھ اور تھا جسے غلط رنگ دیا گیا۔سابق مشیر اجمل وزیر کا کہناہے کہ ان کے خلاف ایک سازش کے تحت کہانی تیار کی گئی ہےجس کے لئےمیر ے ہونے والے مختلف اجلاسوں اور گفتگو پر مشتمل کلپوں کو ایڈٹ کرکے جوڑ نے کی کوشش کی گئی ہے ۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بہت جلد دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونے کے بعد اپنے خلاف ساز ش کرنے والوں کو بے نقاب کروں گا۔اجمل نے اپنے وضاحتی بیان میں ایک اہم بات یہ کی ہے کہ میڈیا کو اشتہارات دینے کے لئے ایک سٹیئرنگ کمیٹی ہے جس کے سربراہ وزیر صحت ہیں او ر کمیٹی کے پاس ہی فنڈز جاری کرنے اور اشتہارات دینے کا اختیار ہے ۔مجھے ایسے معاملے میں گھسیٹا گیا جس میں میرے پاس اختیار ہی نہیں ہے۔اسی طرح جس اشتہاری ایجنسی کے مالک کے ساتھ گفتگو کی بنیا د پر مشیر اطلاعات اجمل وزیر کو گھر بھیجا گیا۔
اس کے مالک کا بھی ایک ویڈیو بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ انہیں بہت دکھ ہوا ہے ان کا کہنا تھا کہ آڈیوٹیپ میں جو گفتگو کی گئی ہے معاملہ یہ نہیں بلکہ کچھ اور تھا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آڈیوبیان کاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ایجنسی کے مالک نے بھی انکشاف کیا کہ آڈیو ٹیپ میں جس میٹنگ کاذکر کیا گیا ہے اس میں ان کے علاوہ سابق مشیر اطلاعات اجمل وزیرجووزیر اعلیٰ کے مشیر تھے کے علاوہ ایک سابق سیکرٹری اطلاعات بھی موجود تھے،معاملہ پروڈکشن کا تھا جو پرسینٹیج کے حساب پر چلاگیا۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے حسب معمول نوٹس لے کر حقاق جاننے کے لئے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا ا ور کہا ہے انکوائر ی کے بعد تمام حقائق سامنے لائیں جائیں گے۔ فی الحال مشیر اطلاعات کا عہدہ کامران بنگش کے پاس ہے۔