اسلام آباد (این این آئی)آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف حکومت کی نظر ثانی درخواست ابتدائی سماعت کیلئے مقرر کر دی گئی ۔ذرائع کے مطابق عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے نظر ثانی درخواست پر نمبر الاٹ کر دیا ہے اور اس پر آئندہ ہفتے سماعت ہوگی۔وزارت دفاع کی جانب سے دائر نظرثانی کی اپیل 26 صفحات پر مشتمل ہے
جس میں 28 قانونی نکات اٹھائے گئے ہیں۔درخواست میں درج ہے کہ وفاقی حکومت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو دوسری مدت کے لیے آرمی چیف بنانے کا فیصلہ ضمیر کے مطابق کیا۔متن میں درج ہے کہ 28 نومبر کو اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی تقرری کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا اور 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی تعیناتی کو قانون سازی سے مشروط کر کے معاملہ نمٹا دیا۔درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ دائرہ اختیار سے باہر اور غیر قانونی ہے، فیصلے میں آئین کے کئی نکات سے صرف نظر کیا اور فیصلے میں کئی سقم موجود ہیں۔وزارت دفاع نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 243 کی ذیلی شقوں کو ایک ساتھ پڑھا جانا چاہیے، عدالت چلی آ رہی روایات کو قانون میں بدلنے کے لیے زور نہیں دے سکتی۔متن میں درج ہے کہ پارلیمنٹ نے 7 دہائیوں سے اس پہلو پر کھبی قانون سازی نہیں کی، پارلیمنٹ نے قانون نہ بنانے سے متعلق اپنے استحقاق کا استعمال کیا۔درخواست میں درج ہے کہ پاکستان میں ففتھ جنریشن وار جاری ہے، پلوامہ واقعہ کے بعد جنرل باجوہ کی کپتانی میں پاکستانی فوج کی تیاریاں منہ بولتا ثبوت ہیں، دہشت گردی کیخلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔فوج اور عدلیہ کا تحفظ جمہوریت کے لیے لازمی ہے، فوج کا تحفظ اندرونی اور بیرونی جارحیت کے مقابلے کے لیے ضروری ہے، جنرل قمبر باجوہ کے ملکی تحفظ اور سکیورٹی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات تاریخ کا حصہ ہوں گے۔درخواست میں اعتراض اٹھایا گیا کہ آیا آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کیخلاف درخواست قابل سماعت تھی،آیا سپریم کورٹ کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ حقائق کے برعکس اور قانون کی نظر میں برا اور اس میں کئی بے قاعدگیاں ہیں۔وزارت قانون نے اعتراض اٹھایا کہ فیصلے میں آئین و قانون کی اہم شقوں کو نظر انداز اور بنیادی اصولوں سے صرف نظر کیا گیا۔سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا فیصلہ عدالت آیا تو پاکستان کے دشمن بہت خوش ہوے، 28 نومبر کے فیصلے پر نظر ثانی کر کے کالعدم قرار دیا جائے۔