ملک آج ایک دوراہے پر کھڑاہے، حکومتی معاشی اصلاحات کے نتیجے میں ملکی معیشت میں بہتری،استحکام آیا ہے،وزیراعظم کا اہم اعلان

13  ‬‮نومبر‬‮  2019

اسلام آباد (این این آئی) وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ حکومتی معاشی اصلاحات کے نتیجے میں ملکی معیشت میں بہتری،استحکام آیا ہے،حکومت کی پہلی دن سے شروع کفایت شعاری کی پالیسی کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی،عوام کا ٹیکس نظام پر اعتماد بحال نہ ہونے تک ملک ترقی نہیں کر پائے گا، ملک آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے،ماضی میں جس طرح ملک کو چلایا گیا اب مزید یہ اس طرح نہیں چل سکتا،

عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ پیسے کی ایک ایک پائی کی حفاظت کرنے کیلئے اپنی کابینہ ممبران کے بیرونی ممالک کے غیر ضروری دوروں پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے،عطیات دینے میں سرکردہ عوام کا ٹیکس نہ دینا باعث تعجب ہے، معاشی عمل تیز کرنے کیلئے کاروباری برادری کا خوف ختم کرنا ہوگا، ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کیلئے مالی وسائل میں اضافہ کرنا ہوگا، کفایت شعاری مہم کا باقاعدہ آغاز اپنی ذات سے کیا، ٹیکس نظام کی بہتری کیلئے عوام کا ایف بی آر اور ٹیکس کے نظام پر اعتماد کلیدی حیثیت رکھتا ہے، ٹیکس نظام کی بہتری میں ٹیکس افسران کی آراء و تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے یہ بات بدھ کو فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے سینئر افسران سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ملاقات میں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ایف بی آر کے سینئر افسران موجود تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے افسران سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسا ملک جہاں صدقات و خیرات اور فلاح و بہبود کے کاموں میں عوام سبقت لیتی ہے وہاں ٹیکس اکٹھا کرنے کی شرح سب سے کم ہونا باعث تعجب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں انہوں نے سب سے زیادہ پیسہ اکٹھا کیا ہے۔ شوکت خانم دنیا کا وہ واحد ہسپتال ہے جہاں کینسر جیسے مرض جس کا علاج مہنگا ترین علاج شمار ہوتا ہے وہاں 75فیصد مریضوں کا مفت علاج کرتا ہے اور یہ سارا پیسہ لوگوں کے عطیات سے اکٹھا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شوکت خانم کے بعد انہوں نے نمل یونیورسٹی کی تعمیر کی جہاں نوے فیصد غریب بچوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔ نمل یونیورسٹی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستانی عوام نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا بلکہ اس کی توسیع میں بھی بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو پاکستانی عوام کی جانب سے انسانی خدمت کا یہ مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن جب دوسری طرف ملک کیلئے ٹیکس کے اعدادو شمار دیکھے جائیں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہاں ٹیکس دینے کی شرح سب سے کم ہے۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ جب بھی کاروباری طبقے سے ملے ہیں ان سب کا اتفاق تھا کہ ایف بی آر پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہے اور کاروباری طبقے میں ایف بی آر سے متعلق ایک خوف پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے،ماضی میں جس طرح اس ملک کو چلایا جا رہا تھا یہ ملک اب مزید اس طرح نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جب ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو ملک تاریخی معاشی مسائل کا شکار تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کیساتھ ساتھ بڑا مسئلہ ملک کی نوجوان آبادی جو کہ کل آباد ی کا 60فیصد ہے

اس کے ٹیلنٹ کو برؤے کار لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل کو تعلیم دے کر ان کو معاشرے کی تعمیر و ترقی کا جزو بناناہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پر توجہ دینے کیلئے ضروری ہے کہ مطلوبہ مالی وسائل موجود ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ چیلنج اور بھی بڑھ جاتا ہے جب ملکی آمدنی کا تقریباً آدھا حصہ ملکی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ میں اس ملک کے پوٹینشل سے اچھی طرح واقف ہوں اور میرا ماننا ہے کہ ہمارے ملک میں 8کھرب ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔وزیرِ اعظم نے ایف بی آر کے افسران سے کہا کہ

ملک کے مالی وسائل کو بڑھانے اور معاشی طور پر ترقی دینے میں ان کا کلیدی کردار ہے جب تک اس ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے اور ٹیکس کی ادائیگی کے عمل کو ایک ذمہ داری اور فریضہ نہیں سمجھا جائے گا ملک ترقی نہیں کرپائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی ملاقات کا مقصد ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانے کے لئے ٹیکس افسران کا فیڈ بیک اور ان سے تجاویز حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معاشی ترقی کیلئے ہم نے کاروباری طبقے اور عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک عوام کا ٹیکس کے نظام پر اعتماد بحال نہیں ہوگا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر پائیگا۔

وزیرِ اعظم نے افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ٹیکس کے نظام میں جو بھی اصلاحات لائی جائیں ان میں ایف بی آر کے افسران کی آراء اور تجاویز شامل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایف بی آر کے افسران کے تجربات سے استفادہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ٹیکس نظام، ماضی میں حکومتی شہ خرچیوں اور بے جا اخراجات کی وجہ سے عوام کا اعتماد متاثر ہونے سے متعلق ایک سوال پر وزیرِ اعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت کو اس بات کا مکمل اداراک ہے کہ اگر عوام اپنے خون پسینے کی کمائی کو بے جا اخراجات اور حکومتی شہ خرچیوں کی نذر ہوتے دیکھتے ہیں تو ان کا ٹیکس کے نظام پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے دن سے کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ اخراجات میں کٹوتی، غیر ضروری اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کی مہم میں نے اپنی ذات اور وزیرِ اعظم آفس سے شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم آفس کے خرچے میں تیس کروڑ تک کمی لائی گئی ہے چونکہ میں اپنے ذاتی گھر میں رہتا ہوں اس لئے وزیر اعظم ہاؤس کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رہائشگاہ کے اطراف میں سیکورٹی کے تقاضوں کے تحت باڑ لگانے کا معاملہ آیا تو اس کیلئے پیسہ سرکاری خزانے سے نہیں لیا گیا، گھر کی سڑک خراب تھی تو اس کی مرمت بھی سرکاری

خزانے کی بجائے اپنی جیب سے کی۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کفایت شعاری کی مہم کو مد نظر رکھتے ہوئے ماضی کے مقابلے میں 45ارب روپے کم خرچہ کیا ہے۔ فوج نے اپنے اخراجات میں کمی کی ہے اور بجٹ میں کٹوتی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی کابینہ ممبران کے بیرونی ممالک کے غیر ضروری دوروں پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے تاکہ عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ پیسے کی ایک ایک پائی کی حفاظت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا مسئلہ یہی رہا ہے کہ جو اقتدار میں آیا اس نے سرکاری وسائل اور عوامی پیسوں کو اپنی ذات پر خرچ کرنا اپنا حق سمجھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں گورنر ہاؤس مری

کی تزئین و آرائش پر تراسی کروڑ روپے خرچ کیے گئے اس کے برعکس موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ تمام گورنر ہاؤسز اور سرکاری ریسٹ ہاؤسز کو برؤے کار لایا جائے اور ان سے آمدنی پیدا کی جائے تاکہ ان پر سرکار کا خرچہ نہ ہو۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہم نے مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں اور اپنے غیر ملکی دوروں کا تقابل کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں واشنگٹن کے دورے پر اخراجات آٹھ لاکھ ڈالر تھے، مسلم لیگ (ن)کے دور میں ایک دورہ سات لاکھ ڈالر میں ہوا جبکہ وہی دورہ جب میں نے کیا تو اس پر محض 65000ڈالر خرچ آیا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں دورے کے دوران اٹھنے والے اخراجات کے بارے

میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ سابق صدر آصف زرداری کادورہ بارہ لاکھ ڈالر میں پڑا، سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا دورہ گیارہ لاکھ ڈالر میں پڑا، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ پر آٹھ لاکھ ڈالر خرچ ہوئے جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں اسی دورے کے اخراجات محض ایک لاکھ 60ہزار ڈالر تک محدود رکھے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ عوام کا پیسہ بچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کفایت شعاری کی مہم کا مقصد عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے اربوں روپے اپنی تشہیر کیلئے خرچ کئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں ٹیکس اور ملکی پیدوار کی شرح بہت کم ہے جو کہ برصغیر میں بھی

سب سے کم ترین ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بنگلہ دیش کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس شرح کو ہم نے بہتربنانا ہے۔ ایک سوال کے جواب پر وزیرِ اعظم نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ایف بی آر بھی اسی معاشرے کا ایک حصہ ہے، اگر معاشرے میں مجموعی طور پر اخلاقیات کا درجہ کم ہو اور کرپشن میں اضافہ ہو تو ایف بی آر بھی یقینا اس سے متاثر ہوگا لیکن ہم نے اس میں بہتری لانی ہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں تعلیم، صحت و دیگر سہولتوں کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے درکار مالی وسائل اکٹھے کیے جائیں۔انہوں نے ایف بی آر

افسران سے کہا کہ آپ ملک کے مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس اکٹھا کرنا ایک قومی فریضہ ہے جس پر ملکی ترقی کا انحصار ہے۔ ایک سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ ماضی میں قومیانے کی پالیسی سے معاشی عمل اور صنعتی ترقی کو بے تحاشہ نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ دولت اور وسائل کی معاشرے میں منصفانہ تقسیم کیلئے مزید بہتر طریقے اختیار کیے جا سکتے تھے لیکن ستر کی دہائی میں جو پالیسی اختیار کی گئی اس سے دولت بنانے کے عمل کو جرم گردانا گیا اس سے نہ صرف صنعتی ترقی کا عمل جمود کا شکار ہوا بلکہ کاروباری برادری کے اعتماد کو ناقابل تلافی ٹھیس پہنچی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں غربت کے خاتمے کیلئے

ضروری ہے کہ کاروباری عمل تیز ہو، لوگ منافع بخش کاروباری سرگرمیاں سر انجام دیں، معاشی عمل تیز ہونے سے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور لوگ غربت سے نکلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ستر کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی معاشی اصلاحات کے نتیجے میں معیشت میں بہتری اور استحکام آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اقدامات کیے ہیں جن کی بدولت پاکستان کی ایز آف ڈوئنگ بزنس ریٹنگ میں 28پوائنٹس بہتری آئی ہے جس کا ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں نے بھی اعتراف کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ ماننا ہے کہ کاروباری برادری کیلئے

جس قدر آسانیاں ہوں گی ملک اتنا جلدی ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک ایک دوراہے پر کھڑا ہے ہم نے اس ملک میں اصلاحات متعارف کرانے کا عمل شروع کر دیا ہے جس سے معاسی اعشاریوں میں بہتری آ رہی ہے، آج ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، ملکی برآمدات میں بڑھوتری جبکہ درآمدات میں کمی آئی ہے،سٹاک مارکیٹ میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کو بدلنا ہے،ہم نے بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرنا ہے تاکہ وہ بھی ملکی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے سے ملکی معاشی ترقی کا ایک نیا باب روشن ہوگا،اس صورتحال میں ٹیکس نظام کی بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس ضمن میں ٹیکس افسران کا کلیدی کردار ہے۔ وزیر اعظم نے ایف بی آر افسران کو یقین دلایا کہ حکومت ٹیکس نظام کی بہتری کے سلسلے میں پیش کی جانے والی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کریگی اور ٹیکس افسران کے تجربے سے استفادہ کیا جائے گا۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…