مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہو چکے ہیں‘ ان کے ساتھ چند ہزار لوگ ہیں یا پھر یہ تعداد لاکھوں میں ہے ہم نہیں جانتے‘ کیوں نہیں جانتے‘ کیوں کہ یہ مارچ میڈیا پر نہیں دکھایا جا رہا لیکن ماضی بتاتا ہے اس قسم کی پابندیاں زیادہ دیر تک نہیں چلا کرتیں‘ یہ پابندیاں بھی کل تک ختم ہو جائیں گی‘
اسلام آباد اس وقت تک کنٹینر آباد بن چکا ہے‘ تمام بڑی سڑکیں اور چوک بند کر دیے گئے ہیں‘ کل کنٹینرز کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو جائے گا جس کے بعد یہ شہر ایک محصور شہر بن جائے گا‘ کیا قوم کو عمران خان سے اس ردعمل کی توقع تھی‘ ہم یہ نقطہ چند دنوں کے لیے سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں‘ مولانا فضل الرحمان کا تازہ ترین خطاب اور وزیراعظم عمران خان کی 20 اگست 2014ء کی تقریر جب یہ اپنا آزادی مارچ لے کر اسلام آباد پہنچے تھے اور میاں نواز شریف کی حکومت نے شہر کو کنٹینرز سے بند کر دیا تھا‘ دونوں تقریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وقت کتنا ظالم ہوتا ہے اور یہ حالات کو کس طرح پھیر دیتا ہے‘ شاعر نے کہا تھا ”مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں‘ کبھی ہم نہیں“۔ حکومت آج اپنے لفظ کسی اور کے منہ سے نکلتے دیکھ کر کیا محسوس کر رہی ہے‘ وہ حقوق جو عمران خان 2014ء میں کسی اور سے مانگ رہے تھے یہ آج اس سے بڑے ہجوم کو وہ حقوق دینے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے استعفے کے ساتھ ساتھ پوری کابینہ کو گھر بھیجیں گے،ہم آزادی مارچ کر رہے ہیں، کوئی دھرنا نہیں ہے، یہ ایک تحریک کا نام ہے، کون کہتا ہے فضل الرحمان اسلام آباد نہیں پہنچے گا، اسلام آباد پہنچنے پر عوامی رائے کا احترام نہ کیا توآزادی مارچ مزید سخت ہوگا، اس کا کیا مطلب ہے‘ تحریک مزید سخت کیسے ہو گی؟