بری مرغیوں اور برے دوستوں میں ایک چیز کامن ہوتی ہے‘ بری مرغیاں دانا آپ کے گھر سے کھائیں گی‘ سارا دن کُڑ کُڑ بھی آپ کے صحن میں کریں گی لیکن جب انڈہ دینے کی باری آئے گی تو یہ ہمسائے کے گھر چلی جائیں گی،
برے دوست بھی ہمیشہ آپ سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن جب فائدہ دینے کی باری آئے گی تو یہ اپنا فیض آپ کے دشمن کے پلڑے میں ڈال دیں گے، امریکی صدر ٹرمپ نے بھی 22 ستمبر کو ہیوسٹن میں یہی کیا‘ یہ کشمیر پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرانا چاہتے تھے لیکن یہ مودی کے ساتھ ان کے جلسے میں بھی چلے گئے‘ انڈیا کو اپنی دوستی کا یقین بھی دلا دیا اور پاکستان کو اپنا مشترکہ دشمن بھی ڈکلیئر کر دیا، یہ خیالات ثابت کرتے ہیں ٹرمپ کی طرف سے ثالثی ڈھونگ تھا‘ یہ اگر واقعی ثالث ہیں تو پھر انہیں کسی ایک فریق کے جلسے میں نہیں جانا چاہیے تھا لیکن ٹرمپ کا یہ ٹرمپ کارڈ ثابت کرتا ہے کشمیر کے ایشو پر امریکا بھارت کے ساتھ کھڑا ہے‘ ہمارے ساتھ اس کی صرف ہمدردیاں ہیں‘ ہم نے اب تک کشمیریوں کے لیے عملی طور پر کیا کیا؟ کرفیو کو 50 دن ہو چکے ہیں‘ ٹرمپ مودی کے ساتھ کھڑا ہے‘ دنیا نے صرف بیان دیے اور ہماری کارکردگی بھی صرف بیانات‘ الزامات اور مظاہروں تک محدود ہے یا پھر ہم ملک میں آدھاگھنٹہ کشمیریوں کے لیے ٹریفک روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ کیا ہم نے کشمیر کھو دیا‘ کیا ہماری فارن پالیسی ناکام ہو گئی، دوسری طرف نیب نے کل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو طلب کر رکھا ہے‘ وزیراعلیٰ نے آج خورشید شاہ کی طرح نیب کو خط لکھ کر مہلت مانگ لی‘ کیا کل خورشید شاہ کی طرح مراد علی شاہ بھی گرفتار ہو جائیں گے؟