پاکستان میں عوام کے بعد اگر کوئی مظلوم ہے تو وہ ہے جمہوریت‘ جمہوریت ایک ایسی جنس ہے جو ہمارے لیڈروں کو صرف اور صرف اپوزیشن میں یاد آتی ہے آپ کو یاد ہوگا میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے 14 مئی 2006ء کو لندن میں ایک میثاق جمہوریت کیا تھا‘
یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا معاہدہ تھا لیکن پھر کیا ہوا‘ 2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی‘ پیپلز پارٹی کو پانچ سال میثاق یاد آیا اور نہ جمہوریت‘ ن لیگ بھی 2013ء سے 2018ء تک اقتدار میں رہی‘ اسے بھی پانچ سال جمہوریت اور میثاق دونوں یاد نہیں آئے‘ یہ دونوں پارٹیاں 2013ء اور 2018ء کے الیکشنز سے پہلے بھی ایک دوسرے سے دست و گریبان رہیں لیکن کل دونوں پارٹیوں کی نوجوان قیادت کو ایک بار پھر میثاق جمہوریت یاد آگئی، میں دل سے سمجھتا ہوں موجودہ حالات میں اپوزیشن کا موقف درست ہے اور حکومت غلط ہے لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کو بھی اپنے آپ کو فکری تضاد سے باہر نکالنا ہوگا‘ آپ اگر جمہوریت سے واقعی محبت کرتے ہیں تو پھر آپ کو اس محبت کا اظہار اقتدار میں کرنا چاہیے‘ آپ کو جمہوریت صرف اپوزیشن میں یاد نہیں آنی چاہیے‘ آپ اگر ایک بار اپنے اس فکری تضاد سے نکل گئے تو پھر آپ یقین کیجئے آپ کوبار بار قوم اور اپنے آپ کو میثاق جمہوریت کا یقین نہیں دلانا پڑے گا‘ یہ احتجاجی تحریک کیوں چلائی جائے گی‘ اگراس تحریک کا مقصد حکومت گرانا نہیں تو پھر اس کا مقصد کیا ہے‘ ن لیگ کا بیانیہ ووٹ کو عزت دو‘ ایک بار پھر واپس آ گیا۔