کسی بچے نے ایک بزرگ سے سوال کیا ”باباجی ہر کہانی کا آغاز ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ اس سے کیوں ہوتا ہے‘ بزرگ سوال سن کر تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر بولے ”بیٹا یہ (پرانی) بات ہو چکی ہے‘ اب بے شمار کہانیوں کا آغاز اگر میں الیکشن جیت گیا‘
اگر میں منتخب ہو گیا اور اگر ہماری حکومت آ گئی۔ اس قسم کے فقروں سے ہوتا ہے۔ میں قوم کو مزید مایوس نہیں کرنا چاہتا لیکن بدقسمتی سے حقیقت یہی ہے‘ قوم کو ہماری حکومت آگئی اور اگر ہم الیکشن جیت گئے جیسے سلوگن نے مروا دیا ہے‘ قوم کی توقعات اتنی بلند‘ اتنی اونچی تھیں کہ حکومت کیلئے اب انہیں مینیج کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو چکا ہے اور ابھی آئی ایم ایف کا زلزلہ آنا باقی ہے‘ آپ ذرا تصور کیجئے جب یہ بھی آ جائے گا‘ جب گیس‘ بجلی اور پٹرول مزید مہنگا ہو جائے گا‘جب جی ایس ٹی 17 سے 18 فیصد ہو جائے گا اور جب ساڑھے سات سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگ جائیں گے تو قوم کی کیا حالت ہو گی‘ ملک کہاں ہو گا تاہم دیر آید اور درست آید‘ حکومت نے آج چارٹر آف اکانومی کیلئے اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھا دیا، یہ میثاق ضرور ہونا چاہیے کیونکہ اگر ملک ہے تو سب کچھ ہے‘ ملک نہیں تو کیا حکومت اور کیا اپوزیشن کوئی بھی نہیں لیکن ایشو یہ ہے حکومت ایک طرف اپوزیشن سے مدد مانگ رہی ہے اور دوسری طرف قومی اسمبلی میں کبڈی کبڈی ہو رہی ہے، حالات یہ ہیں دونوں فریق ایک دوسرے کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ کیا ان حالات میں اپوزیشن اور حکومت دونوں اکٹھے بیٹھ سکیں گے، بلاول بھٹو بار بار کہہ رہے ہیں آپ وفاق چلانے کیلئے سندھ کی مدد لے لیں‘ حکومت مدد کیوں نہیں لے لیتی۔