اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وزیراعظم و بانی مسلم لیگ (ن )نوازشریف آج شام کسی بھی وقت کوٹ لکھپت جیل واپس چلے جائینگے دوسری جانب پارٹی میں حالیہ تبدیلوں کے بعد کئی ارکان (ن) لیگ چھوڑنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ فارورڈ بلاک بننے کے بھی امکانات۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ( ن) لیگ کے کئی ارکان پارٹی کی حالیہ تبدیلیوں کے بعد حکومت سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
اکثر لیگیوں کا خیال تھا شہباز شریف اہم حلقوں سے معاملات طے کر لیں گے،اس حوالہ سے شہباز شریف کو یقین دہانی بھی کروائی گئی تھی کہ وہ معاملات کو سنبھال لیں گے۔مگر شہباز شرہف کی بیرون ملک روانگی اور مسلم لیگ (ن )میں نواز شریف کے ساتھیوں کی پارٹی کے اہم عہدوں پر نامزدگی سے کئی ارکان مایوس ہو گئے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے 10 سے 12 ایم پی ایز تحریک انصاف سے مسلسل رابطوں میں ہیں ان میں سے پانچ ارکان وہ بھی ہیں جنہوں نے اسپیکر الیکشن میں پارٹی امیدوار کی بجائے پرویز الٰہی کو ووٹ دیا تھا۔یہ ارکان گرین سگنل ملنے پر فارورڈ بلاک یا اپنی پارٹی سے الگ ہو سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق تحریک انصا ف نے (ن )لیگ کی ممکنہ جارحانہ پالیسی کا توڑ کرنے کے لیے ان کو مناسب وقت میں استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ارکان کو خصوصی فنڈ اور ان کے حلقوں میں فری ہینڈ دینے کی بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔واضح رہے کہ سعد رفیق نے ن لیگ کےمشاورتی اجلاس میں بھی کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اسی حوالہ سے معروف صحافی علی درانی نے دعویٰ کیا ہے کہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ مجھ سے اب شریف خاندان کی مزید غلامی نہیں ہوتی۔سعد رفیق کہتے ہیں کہ میری لمبی داستان ہے۔ جب (ن )لیگ کی حکومت تھی تو شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے۔
تمام رہنما اپ گریڈ ہو گئے اور میں نے کہا کہ مجھے ریلوے میں رہنے کا شوق نہیں مجھے بھی کوئی اچھا محکمہ دیا جائے۔احسن اقبال وزیر داخلہ تھے،مریم اورنگزیب کے پاس بھی اچھا عہدہ تھا اور مجھے مال گاڑی کے اوپر چڑھا دیا۔اس کے باوجود میں نے الیکشن لڑا اور ایم پی اے بنا،میں نے کہا کہ مجھے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا جائے لیکن وہ بھی حمزہ شہباز کے حصے میں آیا،پھر میں نے کہا کہ مجھے پارلیمانی لیڈر بنایا جائے تو وہ بھی بنایا گیا اور مجھے کہا گیا کہ ہمایوں اختر کے مقابلے پر الیکشن جیتو میں وہ بھی جیت گیا،پھر میں نے کہا کہ مجھے پی اے سی کا ممبر بنایا جائے اور وہ بھی نہ بنایا گیا۔انہوں نے شہباز شریف ، نواز شریف یہاں تک کہ مریم نواز سے بھی درخواست کی تاہم ان کی نہ سنی گئی۔اس کے بعد انہوں نے تیس صدور بنائے اور مجھے آخری نمبر پر رکھا۔علی درانی کا مزید کہنا ہے کہ سعد رفیق پارٹی کو چھوڑیں گے نہیں پارٹی کے اندر ہی رہیں گے۔