اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سینیٹر عثمان کاکڑ نے سینیٹ میں کہا کہ بچوں کا اغوا، زیادتی کی وارداتیں عام ہو گئیں، تحقیقاتی ادارے کیا کر رہے ہیں ایف آئی اے کی سکریننگ ناکام ہو چکی ہے، دوسری جانب یہ المیہ ہے کہ قومی ایئرلائن پر ہیروئن کی سمگلنگ بھی جونکا دینے والی کہانی ہے،جبکہ وزیر ایوی ایشن غلام سرور خان نے کہاکہ پی آئی اے کی نجکاری کاکوئی پلان نہیں ہے۔
انہوںنے کہاکہ پی آئی اے میں نقصان کی وجہ بدانتظامی اورکرپشن ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پہلی بار پچھلی حکومت میں پی آئی اے جہاز چوری ہوا۔انہوںنے کہاکہ پی آئی اے جہاز جرمنی کیسے پہنچازمہ داروں کا تعین جاری ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ بیرون ممالک جانے کیلئے ای سی ایل میں نام ڈالنے سے متعلق اب 3 لسٹیں تیار ہو رہی ہیں بلیک لسٹ، سٹاپ لسٹ، وغیرہ کونسا ادارہ بناتا ہے اس کا معلوم نہیں ہے، سائبر سیکیورٹی سوشل میڈیا پر فعال ہے، فریڈم موومنٹ پر قدغن لگانے کیلئے سائبر سیکیورٹی کا نام پر پسینے نکالے جارہے ہیں، وفاقی وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ ایف آئی پولیس کے بعد فورس ہے جو کام پولیس کی دسترس میں نہیں ہوتا وہ ایف آئی اے کو ٹاسک سونپ دیا جاتا ہے، پھر یہ حقیقت ہے کہ ملک کو باہر سے خطرات کم ہیں مگر اندر سے جڑیں کھوکھلی کرنے کیلئے بھی کام کیا جارہا تھا، ایف آئی اے اگر نہ ہوتی تو نہ جانے ہم کس حالات کا سامنا کر رہے ہوتے ماضی میں کون وہ لوگ تھے جو اس قومی ادارہ کو ذاتی اور سیاسی استعمال کرتا رہا، ایف آئی اے کو ری سٹرکچر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، 486نئی پوسٹیں آرہی ہیں جو کہ اس ادارہ میں اہم کام کرینگی، سائبر کرائم کے دائرہ کار میں وہ لوگ آتے ہیں جو کہ ایک ٹویٹ یا پوسٹ کے ذریعے کسی کی بھی عزت کی تارتار کر دیتے ہیں فریڈم موومنٹ کی حدود قیود دیں۔ ادارے کس کیلئے شہادتیں دے رہے ہیں ایک حد تک تنقید کر سکتے ہیں ایف آئی اے میں سائبر کرائم سے متعلق پٹرولنگ یونٹ قائم کی گئی ہے جہاں ای میل کے ذریع شکایت درج ہوگی، کسی بھی آفیسر، جرنلسٹ یا کسی بھی شخص سے متعلق شکایت ہو سکتی ہے، سائبر کے متعلق 15پولیس اسٹیشن بنائے جا چکے ہیں اور مزید بھی بنائے جائیں گے، دوسری جانب وفاقی وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کرپٹ یا کرائم دیکھا جاتا ہے وہ خفیہ طریقے سے شکایت کرے ازالہ کریں گے۔