اسلام آباد(آن لائن)حکام نے پاکستان میں رواں برس کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران سامنے آنے والے نویں پولیو کیس کی تصدیق کردی۔قومی ادارہ برائے صحت کے عہدیدار کے مطابق لاہور میں ایک 10 سالہ بچے میں پولیو وائرس سے متاثر ہوا ہے۔قومی ادارہ برائے صحت کی پولیو لیبارٹری میں تعینات ایک عہدیدار نے بتایا کہ 2 اپریل کو پانی کے
نمونے لے کر تصدیق کے لیے اسلام آباد بھیجے گئے تھے اور مذکورہ وائرس لاہور میں آؤٹ فال پمپنگ اسٹیشن سے تعلق رکھتا ہے۔دوسری جانب سے جب وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے انسدادِ پولیو بابر بن عطا سے اس حوالے سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے بھی اس کیس کی تصدیق کردی۔خیال رہے کہ پولیو وائرس سے متاثر ہونے کے بعد پہلی علامت ظاہر ہونے کے لیے 3 سے 4 ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’یہ تشویشناک بات کے دوسری مرتبہ ایک 10 سال کی عمر کے بچے کا پولیو سے متاثر ہونے کا کیس سامنے آیا ہے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس سے پولیو ماہرین کی وہ تجاویز بھی درست ثابت ہوگئیں جس میں وہ دس سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر زور دیتے ہیں۔دوسری جانب حالیہ پولیو مہم کے دوان خیبر پختونخوا میں درپیش مسائل اور لاہور میں سامنے آنے والے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بابر بن عطا کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے سابقہ پنجاب حکومت پولیو وائرس کی موجودگی سے انکار کرتی رہی اور نہ ہی کوئی اس وقت پولیو مہم کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار تھا‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پنجاب میں پولیو وائرس ملنے کے باوجود صوبائی حکومت کہتی تھی کہ وائرس پشاور کا ہے لیکن ہم بھی اس کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ پشاور میں سامنے آنے والے وائرس کا تعلق افغانستان سے ہے۔
اس ضمن میں جب ویکسین سے انکار کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں بابر بن عطا سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیو ویکسینیشن کے لیے روابط کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس وائرس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے، اور بہتر اور موثر رابطوں کے حکمت عملی اپنا کر والدین کے خدشات دور کرنے ہوں گے‘۔خیال رہے ملک میں رواں سال 9 پولیو کیس سامنے آئے جس میں لاہور اور بنوں میں 2، 2 کیس اس کے علاوہ ہنگو، وزیرستان، باجوڑ، قبائل ضلع خیبر اور کراچی سے ایک ایک کیس سامنے آیا۔یہ بات مد نظر رہے کہ دنیا میں پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا وہ 3 ممالک ہیں جہاں اب بھی پولیو کا مکمل خاتمہ ممکن نہ ہوسکا۔