برطانیہ کی ایک ویب سائیٹ پر چند دن قبل کسی نامعلوم خاتون کا ایک دلچسپ اشتہار شائع ہوا‘ یہ دنیا میں اس نوعیت کا پہلا اشتہار ہے‘ خاتون نے اشتہار میں اعتراف کیا میں مسلسل ایک برس سے غلط فیصلے کر رہی ہوں‘ ان فیصلوں کی وجہ سے میں معاشی طور پر تباہ ہو گئی ہوں‘ میرے تعلقات بھی خراب ہو چکے ہیں‘ میری فیملی لائف بھی برباد ہو چکی ہے اور میری صحت بھی ضائع ہو گئی ہے‘ مجھے اب ایک ایسا شخص چاہیے جو میرے بی ہاف پر میرے لئے فیصلے کرے‘
یہ مجھے فیملی لائف میں بھی مشورے دے‘ میری سرمایہ کاری کو بھی دیکھے اور میرے روزانہ کے فیصلے بھی کرے‘ خاتون نے ایسے شخص کیلئے 2 ہزار چھ سو پاؤنڈز وقف کر دیے ہیں‘ ہمارے وزیراعظم کو بھی اب اس خاتون کی طرح کوئی ایسا شخص چاہیے جو ان کے بی ہاف پر فیصلے کرے کیونکہ حکومت نے پچھلے چھ ماہ میں جتنے بھی بڑے فیصلے کئے ان کا نتیجہ اس برطانوی خاتون کے فیصلوں جیسا نکلا‘ وہ فیصلے خواہ آئی جی محمد طاہر کی تقرری ہو یا پھر ناصر درانی کی ایڈوائزری‘ آئی جی اسلام آباد کا ٹرانسفر‘ آئی جی کے پی کے صلاح الدین محسود کا تقرر‘ علیم خان کو سینئر وزیر بنانا ہو یا پھر آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے اور میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ ہو‘ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے اور گورنر ہاؤسز کو ہوٹل یا میوزیم بنانے کے فیصلے ہوں حکومت کا ہر فیصلہ غلط نکلا اور حکومت کو اس پر یوٹرن بھی لینا پڑا‘ وزیراعظم کو واقعی اب ایک ایسے ڈسیژن میکر کی ضرورت ہے جو آج فیصلے بھی کرے اور کل جب این آر او ہو گا‘ سعودی عرب کے ولی عہد کو وزیراعظم ہاؤس میں ٹھہرایا جائے گا اور پاکستان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر دستخط کرے گا تو یوٹرن کی بے عزتی اور سزا بھی وزیراعظم کی جگہ وہ بھگتے‘ حکومت کے پاس اب اس ڈسیژن میکر کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔ہم آج کے موضوعات کی طرف آتے ہیں، عمران خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہیں جس نے آئی ایم ایف سے خود مذاکرات کئے‘ ہم اسے حکومت کی سنجیدگی کہیں گے یا پھر مجبوری اور کیا حکومت واقعی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو خفیہ رکھ رہی ہے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ وزیراعظم اور وزیر خزانہ دونوں نے کیا دعویٰ کیا، ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔