ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج لیک کا معاملہ،انتظامیہ کے ہوش اڑ گئے،حقیقت کیا ہے؟سب کچھ سامنے آگیا

datetime 27  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد میں سیف سٹی منصوبے کے کیمروں کی فوٹیج مبینہ طور پر لیک ہونے پر جہاں شہریوں نے تشویش کا اظہار کیا وہیں منصوبے کو ذاتی زندگی میں مداخلت اور اس کے استعمال کو غلط استعمال بھی قرار دیا۔ گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر گاڑی میں بیٹھے جوڑوں کی تصاویر وائرل ہوگئی تھیں۔واضح رہے کہ سیف سٹی کا منصوبہ اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد دہشت گردی اور جرائم کی بروقت روک تھام کے لیے اقدامات کرنا تھا۔

لیکن یہ سہولت متعدد مواقع پر مطلوبہ نتائج نہ دے سکی، جس میں پشاور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر داؤڑ کے اغوا اور قتل کا معاملہ بھی شامل ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حال ہی میں منظر عام پر آنے والی فوٹیج نے منصوبے پر متعدد سوالات اٹھا دیئے ہیں کہ آیا یہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے یا ان کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہیں۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر لیک فوٹیج شیئر ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے کہ آیا یہ فوٹیج دارالحکومت سے ہیں یا ان کا تعلق کسی اور شہر سے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ تصاویر اسلام آباد میں سیف کیمرہ کے منصوبے سے تعلق نہیں رکھتیں، اس کے علاوہ تفتیش کارروں نے فوٹیج میں شناخت ہونے والی گاڑی کے مالکان سے رابطہ کیا اور انہیں اس معاملے میں بیان دینے کو بھی کہا۔فوٹیج میں نظر آنے والی اسلام آباد رجسٹریشن نمبر کی ایک گاڑی کے مالک نے پولیس کو بتایا کہ یہ تصاویر لاہور کی ہیں جبکہ ایک اور فرد، جن کی گاڑی بھی اسلام آباد رجسٹریشن نمبر کی ہے، کا کہنا تھا وہ اپنی گاڑی لاہور کے ایک رہائشی کو فروخت کرچکے ہیں۔اسی طرح فوٹیج میں نظر آنے والی لاہور رجسٹریشن نمبر کی ایک گاڑی کے مالک نے پولیس کو بتایا کہ وہ بہاولپور کا رہائشی ہے اور وہاں ایک ہسپتال میں ملازم ہے۔

انہوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں لاہور آئے تھے جہاں تصاویر لی گئی ہیں۔پولیس حکام کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فوٹیج اسلام آباد کے سیف سٹی کیمرہ کی نہیں ہیں۔ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر میڈیا کو بتایا کہ کچھ سال پہلے اسلام آباد کے سیف سٹی منصوبے کے تحت لگائے گئے کیمروں کی فوٹیج لیک ہوئی تھیں، جن میں 2016 میں ایک خاتون کی فوٹوگراف بھی شامل ہے۔مذکورہ معاملے کے 4 ذمہ داران کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔انہوں نے مزید بتایا کہ اسلام آباد سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج اور ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنا ناممکن ہے جبکہ انہیں موبائل کیمرے یا ویڈیو کیمرے کی مدد سے کاپی کرنا بھی ناممکن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ضابطہ اخلاق (ایس او پی) کے تحت سیف سٹی کنٹرول روم سے یا عمارت سے کسی ویڈیو یا تصویر کو لیک کرنا ناممکن ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…