پیر‬‮ ، 10 جون‬‮ 2024 

سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج لیک کا معاملہ،انتظامیہ کے ہوش اڑ گئے،حقیقت کیا ہے؟سب کچھ سامنے آگیا

datetime 27  جنوری‬‮  2019

اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد میں سیف سٹی منصوبے کے کیمروں کی فوٹیج مبینہ طور پر لیک ہونے پر جہاں شہریوں نے تشویش کا اظہار کیا وہیں منصوبے کو ذاتی زندگی میں مداخلت اور اس کے استعمال کو غلط استعمال بھی قرار دیا۔ گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر گاڑی میں بیٹھے جوڑوں کی تصاویر وائرل ہوگئی تھیں۔واضح رہے کہ سیف سٹی کا منصوبہ اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد دہشت گردی اور جرائم کی بروقت روک تھام کے لیے اقدامات کرنا تھا۔

لیکن یہ سہولت متعدد مواقع پر مطلوبہ نتائج نہ دے سکی، جس میں پشاور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر داؤڑ کے اغوا اور قتل کا معاملہ بھی شامل ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حال ہی میں منظر عام پر آنے والی فوٹیج نے منصوبے پر متعدد سوالات اٹھا دیئے ہیں کہ آیا یہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے یا ان کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہیں۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر لیک فوٹیج شیئر ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے کہ آیا یہ فوٹیج دارالحکومت سے ہیں یا ان کا تعلق کسی اور شہر سے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ تصاویر اسلام آباد میں سیف کیمرہ کے منصوبے سے تعلق نہیں رکھتیں، اس کے علاوہ تفتیش کارروں نے فوٹیج میں شناخت ہونے والی گاڑی کے مالکان سے رابطہ کیا اور انہیں اس معاملے میں بیان دینے کو بھی کہا۔فوٹیج میں نظر آنے والی اسلام آباد رجسٹریشن نمبر کی ایک گاڑی کے مالک نے پولیس کو بتایا کہ یہ تصاویر لاہور کی ہیں جبکہ ایک اور فرد، جن کی گاڑی بھی اسلام آباد رجسٹریشن نمبر کی ہے، کا کہنا تھا وہ اپنی گاڑی لاہور کے ایک رہائشی کو فروخت کرچکے ہیں۔اسی طرح فوٹیج میں نظر آنے والی لاہور رجسٹریشن نمبر کی ایک گاڑی کے مالک نے پولیس کو بتایا کہ وہ بہاولپور کا رہائشی ہے اور وہاں ایک ہسپتال میں ملازم ہے۔

انہوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں لاہور آئے تھے جہاں تصاویر لی گئی ہیں۔پولیس حکام کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فوٹیج اسلام آباد کے سیف سٹی کیمرہ کی نہیں ہیں۔ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر میڈیا کو بتایا کہ کچھ سال پہلے اسلام آباد کے سیف سٹی منصوبے کے تحت لگائے گئے کیمروں کی فوٹیج لیک ہوئی تھیں، جن میں 2016 میں ایک خاتون کی فوٹوگراف بھی شامل ہے۔مذکورہ معاملے کے 4 ذمہ داران کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔انہوں نے مزید بتایا کہ اسلام آباد سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج اور ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنا ناممکن ہے جبکہ انہیں موبائل کیمرے یا ویڈیو کیمرے کی مدد سے کاپی کرنا بھی ناممکن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ضابطہ اخلاق (ایس او پی) کے تحت سیف سٹی کنٹرول روم سے یا عمارت سے کسی ویڈیو یا تصویر کو لیک کرنا ناممکن ہے۔

موضوعات:



کالم



کھوپڑیوں کے مینار


1750ء تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں…

سنگ دِل محبوب

بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور…

ہم بھی

پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا…

صرف ایک زبان سے

میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…

آل مجاہد کالونی

یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میرے ایک دوست کسی…

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل…

ایک نئی طرز کا فراڈ

عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں…

فرح گوگی بھی لے لیں

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے…

آئوٹ آف دی باکس

کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…