ہفتہ‬‮ ، 12 اپریل‬‮ 2025 

سی ٹی ڈی کب اور کن مقاصد کیلئے قائم کیا گیا؟ سوالات اٹھنے لگے،نئی بحث چھڑ گئی

datetime 22  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سی ٹی ڈی کے کردار پر سوالات اٹھنے لگے ہیں اور یہ بات بھی اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ ادارہ کب اور کن مقاصد کیلئے قائم کیا گیا ، اس کا تنظیمی ڈھانچہ آئی جی پنجاب کے بجائے براہ راست وزیراعلیٰ پنجاب کو جوابدہ ہے تاہم سابق آئی جی پنجاب طارق سلیم کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی آئی جی کو بھی جوابدہ تھا ، اس کی خدمات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ۔

روزنامہ جنگ  کےمطابق ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب خاتون اور بچی سمیت 4؍ افراد کے بیہمانہ اور غیر ذمہ دارانہ قتل کے بعد جہاں پنجاب کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے کردار پر سوالات اٹھنے لگے ہیں وہاں یہ بات بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ یہ ادارہ کب اور کن مقاصد کے تحت قائم کیا گیا ۔ پنجاب پولیس میں 1937ء کے سی آئی ڈی مینؤل کے تحت ’’کریمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ ‘‘ کے نام سے ایک یونٹ کام کر رہا تھا جسے 2010ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پنجاب کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ یعنی ’’سی ٹی ڈی‘‘ میں تبدیلی کرنےکا فیصلہ کیا۔ اس وقت طارق سلیم آئی جی پنجاب تھے۔ اس ادارے کا تنظیمی ڈھانچہ اس طرح سے بنایا گیا کہ یہ آئی جی پنجاب کے بجائے براہ براست وزیراعلیٰ پنجاب کو جوابدہ ہو۔تاہم جب اس حوالے سے سابق انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس طارق سلیم سے بات کی گئی تو انہوں نے اس تاثر کی نفی کی۔ سابق آئی جی پنجاب طارق سلیم نے  بتایا کہ سی ٹی ڈی کی تشکیل اس وقت کے حالات کے تناظر میں ایک اجتماعی فیصلہ تھا اور یہ محکمہ وزیراعلیٰ کیساتھ ساتھ آئی جی کو بھی جوابدہ تھا۔ سانحہ ساہیوال کو تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے طارق سیلم نے اصرار کیا کہ سی ٹی ڈی کی خدمات پوری پنجاب پولیس سے کہیں بڑھ کر ہیں اور اس ایک سانحہ کی وجہ سے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو ٹریننگ دینے کیلئے افواج پاکستان کے کمانڈوز کیساتھ ساتھ غیر ملکی ٹرینز کی خدمات بھی حاصل کی گئیں اور اسے جدید اسلحہ اور بھرپور وسائل بھی فراہم کئے گئے۔ پہلے تو سی ٹی ڈی کیلئے پنجاب پولیس کیساتھ ہی بجٹ مخصوص ہوتا رہا مگر 2016ء میں پہلی بار یہ کہا گیا کہ سی ٹی ڈی کے لئے الگ بجٹ مختص کیا جائے یوں 2017-18میں سی ٹی ڈی کیلئے 4.675؍ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ۔

سی ٹی ڈی کا تنظیمی ڈھانچہ اس طرح کا ہے کہ ایڈیشنل آئی جی رینک کا پولیس افسر سربراہ لگایا جاتا ہے مگر ان دنوں ڈی آئی جی رائے طاہر کو اضافی چارج دیا گیا ہے۔ سی ٹی ڈی کے لاہور ، فیصل آباد ، ملتان اور راولپنڈی میں تھانے قائم کئے گئے ہیں جہاں ملزموں کو پکڑ کر لایا جاتا ہے اور ان سے تفتیش کی جاتی ہے جبکہ ہرضلع میں ایک ڈی ایس پی رینک کا افسر سی ٹی ڈی ٹیم کی قیادت کرتا ہے ۔سی ٹی ڈی کو 2؍ شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، انٹیلی جنس اور آپریشنز۔ اس کے علاوہ کاؤنٹر ٹیرر ازم فورس (CTO)کے نام سے اسپیشل تربیت یافتہ کمانڈوز جن کی ٹریننگ ایس ایس جی کے طرز پر کی گئی ہوتی ہے، اہم آپریشنز اور کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی


عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…