منگل‬‮ ، 05 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

سی ٹی ڈی کب اور کن مقاصد کیلئے قائم کیا گیا؟ سوالات اٹھنے لگے،نئی بحث چھڑ گئی

datetime 22  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سی ٹی ڈی کے کردار پر سوالات اٹھنے لگے ہیں اور یہ بات بھی اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ ادارہ کب اور کن مقاصد کیلئے قائم کیا گیا ، اس کا تنظیمی ڈھانچہ آئی جی پنجاب کے بجائے براہ راست وزیراعلیٰ پنجاب کو جوابدہ ہے تاہم سابق آئی جی پنجاب طارق سلیم کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی آئی جی کو بھی جوابدہ تھا ، اس کی خدمات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ۔

روزنامہ جنگ  کےمطابق ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب خاتون اور بچی سمیت 4؍ افراد کے بیہمانہ اور غیر ذمہ دارانہ قتل کے بعد جہاں پنجاب کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے کردار پر سوالات اٹھنے لگے ہیں وہاں یہ بات بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ یہ ادارہ کب اور کن مقاصد کے تحت قائم کیا گیا ۔ پنجاب پولیس میں 1937ء کے سی آئی ڈی مینؤل کے تحت ’’کریمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ ‘‘ کے نام سے ایک یونٹ کام کر رہا تھا جسے 2010ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پنجاب کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ یعنی ’’سی ٹی ڈی‘‘ میں تبدیلی کرنےکا فیصلہ کیا۔ اس وقت طارق سلیم آئی جی پنجاب تھے۔ اس ادارے کا تنظیمی ڈھانچہ اس طرح سے بنایا گیا کہ یہ آئی جی پنجاب کے بجائے براہ براست وزیراعلیٰ پنجاب کو جوابدہ ہو۔تاہم جب اس حوالے سے سابق انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس طارق سلیم سے بات کی گئی تو انہوں نے اس تاثر کی نفی کی۔ سابق آئی جی پنجاب طارق سلیم نے  بتایا کہ سی ٹی ڈی کی تشکیل اس وقت کے حالات کے تناظر میں ایک اجتماعی فیصلہ تھا اور یہ محکمہ وزیراعلیٰ کیساتھ ساتھ آئی جی کو بھی جوابدہ تھا۔ سانحہ ساہیوال کو تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے طارق سیلم نے اصرار کیا کہ سی ٹی ڈی کی خدمات پوری پنجاب پولیس سے کہیں بڑھ کر ہیں اور اس ایک سانحہ کی وجہ سے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو ٹریننگ دینے کیلئے افواج پاکستان کے کمانڈوز کیساتھ ساتھ غیر ملکی ٹرینز کی خدمات بھی حاصل کی گئیں اور اسے جدید اسلحہ اور بھرپور وسائل بھی فراہم کئے گئے۔ پہلے تو سی ٹی ڈی کیلئے پنجاب پولیس کیساتھ ہی بجٹ مخصوص ہوتا رہا مگر 2016ء میں پہلی بار یہ کہا گیا کہ سی ٹی ڈی کے لئے الگ بجٹ مختص کیا جائے یوں 2017-18میں سی ٹی ڈی کیلئے 4.675؍ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ۔

سی ٹی ڈی کا تنظیمی ڈھانچہ اس طرح کا ہے کہ ایڈیشنل آئی جی رینک کا پولیس افسر سربراہ لگایا جاتا ہے مگر ان دنوں ڈی آئی جی رائے طاہر کو اضافی چارج دیا گیا ہے۔ سی ٹی ڈی کے لاہور ، فیصل آباد ، ملتان اور راولپنڈی میں تھانے قائم کئے گئے ہیں جہاں ملزموں کو پکڑ کر لایا جاتا ہے اور ان سے تفتیش کی جاتی ہے جبکہ ہرضلع میں ایک ڈی ایس پی رینک کا افسر سی ٹی ڈی ٹیم کی قیادت کرتا ہے ۔سی ٹی ڈی کو 2؍ شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، انٹیلی جنس اور آپریشنز۔ اس کے علاوہ کاؤنٹر ٹیرر ازم فورس (CTO)کے نام سے اسپیشل تربیت یافتہ کمانڈوز جن کی ٹریننگ ایس ایس جی کے طرز پر کی گئی ہوتی ہے، اہم آپریشنز اور کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام


شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…