سرجن اگر زخمی کے آپریشن کے دوران قینچی اس کے پیٹ میں بھول جائے تو آپ۔۔ اسے کیا کہیں گے‘ آپ یقیناً اسے بدنصیبی کہیں گے اور انسان جب بدنصیبی کے دور میں پھنستا ہے تو یہ آسمان سیدھا شیر کے پنجرے میں گرجاتا ہے‘ ہماری حکومت کے ساتھ بھی ۔۔اس وقت یہی ہو رہا ہے‘ یہ ابھی معیشت‘ بیڈ گورننس‘ وزراء کی نالائقیوں ‘ یوٹرنز اور اپوزیشن کے دباؤ سے باہر نہیں آئی تھی کہ کراچی میں دہشت گردی کی نئی لہر آ گئی‘
ملک کے سب سے بڑے شہر میں چھ ہفتوں میں دہشت گردی کی چھ بڑی وارداتیں ہوئیں اور ان میں 9 لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے‘ کل ایم کیو ایم کے سابق ایم این اے علی رضا عابدی پر حملہ ہوا اور وہ اس حملے میں جان کھو بیٹھے‘ اس سے پہلے 23 دسمبرکو پی ایس پی کے دفتر پر حملہ ہوا اور اس میں پارٹی کے دو کارکن جاں بحق ہو گئے‘ یہ حملے‘ کراچی کی یہ صورتحال خطرے کی گھنٹی ہے‘ یہ گھنٹی بھی اگر مسلسل بجنا شروع ہوگئی تو آپ خود فیصلہ کیجئے حکومت کی کیا پوزیشن ہو گی‘ کیا یہ آسمان سے شیر کے پنجرے میں نہیں جا گرے گی یا یہ خود کو ایک ایسا زخمی محسوس نہیں کرے گی جس کے آپریشن کے دوران ڈاکٹر قینچی اس کے پیٹ میں بھول جائے چنانچہ میرا خیال ہے کراچی کی شکل میں ایک اور بڑا امتحان حکومت کے سر پر کھڑا ہوچکا ہے‘ یہ حملے اگر جاری رہتے ہیں تو کراچی کا وہ امن جو ریاست نے بڑی مشکل سے قائم کیا تھا اسے جاتے‘ غائب ہوتے دیر نہیں لگے گی اور اگر خدانخواستہ یہ ہو گیا تو پھر کراچی میں امن قائم کرنا آسان نہیں ہوگا‘ہمیں شہر میں مستقل مارشل لاء لگانا پڑجائے گا‘ ایک طرف یہ سوال منہ کھول کر کھڑا ہے اور دوسری طرف حکومت یہ موقف دے رہی ہے، آپ اگر گورنر سندھ کے ان خیالات کو علی محمد خان کیگیارہ ماہ پرانے خیالات سے جوڑ کر دیکھیں تو آپ کو تھوڑی سی حیرت ہو گی، اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ وفاقی حکومت‘ صوبائی حکومت یا پھر ماضی کی حکومتیں‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ کراچی کے حالات کتنے حساس ہیں اور حکومت کو فوری طور پر کیا کرنا چاہیے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے ہمارے ساتھ رہیے گا۔