ریاض (نیوز ڈیسک) عام انتخابات میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی اور اس نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں، ایشیا ٹائمز کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے حکمران چاہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی حمایت کریں۔
ایشیا ٹائمز کے مطابق سعودی حکمران چاہتے ہیں کہ عمران خان کھلے عام سعودی عرب کی قیادت میں بنے اسلامی عسکری اتحاد کی حمایت کریں اور سعودی حکومت نے اپنی یہ خواہش حالیہ ملاقاتوں کے دوران پاکستانی قیادت تک بھی پہنچا دی ہے، اس موقع پر تازہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب منگل کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی منیٰ میں ملاقات ہوئی، میجر جنرل آصف غور نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ سعودی ولی عہد نے پاکستان کی نئی حکومت کی حمایت اور اس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینئر عسکری حکام نے تصدیق کی کہ کئی محاذوں پر پاکستان کے سعودی عرب سے تعاون پر بات چیت ہوئی جس میں ریاست کی سکیورٹی بھی شامل تھی، اس دوران اسلامی فوجی اتحاد پر بھی بات چیت ہوئی جس کے سربراہ پاک فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف ہیں اور سعودی عرب چاہتا ہے کہ اس میں نئی پاکستانی حکومت بھی شامل ہو۔ ایک سینئر سفارت کار نے ایشیاء ٹائمز سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ سعودی قیادت چاہتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کھلے عام اس اتحاد کی حمایت کریں کیونکہ انہیں ان کے خیال میں ایسا کرنے سے پوری دنیا میں اتحاد کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا جس پر پہلے ہی ایک مخصوص گروپ کے خلاف ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ سعودی حکام کا خیال ہے کہ اسلامی اتحاد میں عراق اور ایران کی عدم شمولیت کی مذہبی یا نظریاتی اختلاف کی بجائے سیاسی وجوہات ہیں
اور پاکستان کی حمایت اس ضمن میں مدد گار ہوگی۔ واضح رہے کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ ہفتے مبارکباد دینے کے لیے رابطہ کیاتھا اور انہیں دورہ سعودی عرب کی دعوت بھی دی جو وزیراعظم نے قبول کرلی، آئندہ ماہ ہونے والے دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیل سے بات چیت ہوگی۔ ماضی میں عمران خان پاکستان کے یمن کیخلاف سعودی اتحاد میں شمولیت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے بتایاکہ ستمبر میں ملاقات کے بعد عمران خان بیان دیں گے کہ پاکستان سعودی عرب میں مقامات مقدسہ پر حملوں کے خلاف اس کے ساتھ ہے جس کا عمومی طور پر مطلب غیرجانبداری لیا جاتا ہے تاہم سعودی حکام کی طرف سے اس بیان کو بھی قبول کر لیا جائے گا کہ پاکستان ہرطرح کے عسکری تعاون کے لیے تیار ہے تاہم یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کا عسکری تعاون ہی واضح کرے گا کہ سعودی حکومت پاکستان کو کتنے بلین ڈالر دیتی ہے۔ پاکستان اس وقت معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے اسلامی ترقیاتی بینک سے چار بلین ڈالر قرض حاصل کرنے کے بارے سوچ رہا ہے اس بینک کو بھی سعودی حمایت حاصل ہے، سعودی عرب کی حکومت مستقبل میں بھی پاکستان کی معاشی معاونت کر سکتی ہے لیکن اس کا فیصلہ عمران خان اور پاکستان کو کرنا ہے۔