ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

نوازشریف حکومت کا2ارب اشتہارات کے نام پر ٹی وی چینلز کو دینے کی تحقیقات، ریڈیو میں ساڑھے سات کروڑ کرپشن سکینڈل کا بھی انکشاف

datetime 25  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی حکومت ٹی وی چینلز کو کسی پالیسی کے بغیر 6ارب روپے کے اشتہارات دیتی ہے جبکہ من پسند ٹی وی چینلز کو زیادہ ریٹس دئیے جارہے ہیں،وفاقی سیکرٹری احمد نواز سکھیرا نے انکشاف کیا کہ وزارت میں سیکرٹ فنڈز کا بجٹ ختم کردیا ہے۔پی اے سی نے گزشتہ10سالوں میں اشتہارات کے بجٹ اور اخبارات اور ٹی وی چینلز کو دئیے گئے اشتہارات کی مکمل تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں

جبکہ پاکستان ٹیلی ویژن میں مبینہ کرپشن،بد انتظامی اور اصلاحات لانے کے لئے5رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے۔اجلاس کو سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ بہت جلد پارلیمانی چینلز بن جائے گا جو قومی اسمبلی،سینیٹ اور قائمہ کمیٹیوں کی براہ راست کوریج کرے گا۔پی اے سی نے گزشتہ سال نوازشریف حکومت کی طرف سے2ارب روپے کے اشتہارات چلانے کی بھی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔پی اے سی کا اجلاس سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا،جس میں نوید قمر،ڈاکٹر عذرا پچیہو،مشاہد حسین سید،شفقت محمود،سید مصطفیٰ شاہ،شاہدہ اختر علی،ڈاکٹر عارف علوی اور سردار عاشق گوپانگ نے شرکت کی،اجلاس میں وزارت اطلاعات ونشریات کے مالی سال2016-17ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا کہ حکومت ہر سال6ارب روپے کے اشتہارات اخبارات اور ٹی وی چینلز کو دیتی ہے جس میں 3ارب کے اشتہارات اخبارات کو جبکہ3ارب سے4 ارب کے اشتہارات ٹی وی چینلز کو دئیے جاتے ہیں۔پی اے سی نے کہا کہ حکومت اشتہارات کے ذریعے میڈیا کی آزادی کو سلب کرتی ہے جو کہ ایک غیر قانونی اقدام ہے،حکومت مختلف اشتہاری ایجنسیوں کی خدمات حاصل کرکے اخبارات میں من پسند خبریں چھپواتی ہیں اور حکومت مخالف خبریں رکواتی ہے۔سیکرٹری اطلاعات ونشریات احمد سکھیر نے پی اے سی کو باتیا کہ الیکٹرانک میڈیا میں اشتہارات جاری کرنے بارے کوئی پالیسی نہیں ہے۔

پی اے سی نے کہا پی آئی او اپنی مرضی سے ٹی وی چینلز کو اشتہارات اور ریٹس دیتا ہے اس غیر قانونی کام کو روکنے کے لئے الیکٹرانک میڈیا کو اشتہارات دینے بارے کوئی پالیسی وضع کی جائے تاکہ شفافیت ہوسکے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیکرٹری کو حکم دیا ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز کو دئیے جانے والے اشتہارات اور ریٹس بارے مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔پی اے سی نے اخبارات کو اشتہارات دینے بارے اشتہاری کمپنیوں کی خدمات لینے کی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کی ہدایت کردی۔پی اے سی نے کہا کہ اشتہاری کمپنیوں کو پسند وناپسند کی بناء پر اربوں روپے کے فائدے دئیے جارہے ہیں اورپارلیمنٹ اس غیرقانونی اقدام روکنے بارے تمام ممکنہ اقدامات کرے گی۔

انہوں نے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کے معاملات کے بارے میں شفافیت برقرار رکھی جائے اور کنٹریکٹ دیتے وقت پیپرا رولز کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔پی آئی او سے ایڈورٹائزنگ کمپنی کو ٹھیکے دینے بارے پالیسی بھی طلب کرلی گئی۔پی اے سی نے چینلر سیون نامی اشتہاری کمپنی اور انٹرلنک کمپنی کو24کروڑ50لاکھ کے اشتہارات دینے کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔پی اے سی نے کہا تمام ٹی وی چینلز کو قانون کے مطابق پبلک سروس اشتہارات چلانے کی بھی ہدایت کی ہے اور اس بارے سیکرٹری کو رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاکستان ٹیلی ویژن میں اربوں روپے کی کرپشن، بدانتظامی اور میرٹ کی خلاف ورزیوں اور اقرباء پروری کی شکایات کا جائزہ لینے کیلئے ایم این اے شفقت محمود کی صدارت میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو 15دن کے اندر رپورٹ دے گی۔سیکرٹری احمد نواز سکھیرا نے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل نو خوش آئند اقدام قرار دیا اور کہا کہ یہ ادارہ تباہ ہوچکا ہے ادارہ کی ری سٹرکچرنگ کرنے بارے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو وفاقی سیکرٹری نے بتایا کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں مریم نواز کی صدارت میں چلنے والے میڈیا سیل کا وزارت اطلاعات ونشریات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سیل کا بجٹ وزارت اطلاعات کے بجٹ سے منسلک نہیں ہے۔

پی اے سی نے 2016 ء میں نوازشریف حکومت نے2ارب روپے سے زائد کی اشتہاری مہم چلائی تھی جس کی تحقیقات کا حکم پی اے سی نے آڈٹ اعتراضات کی روشنی میں دیا ہے۔پی اے سی نے گزشتہ دس سالوں میں اشتہارات کی مد میں قومی خزانہ سے خرچ کی گئی فنڈز کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں جبکہ ٹی وی چینلز کو خصوصی ریٹس بارے تفصیلات بھی مانگ لی ہیں۔شفقت محمود نے سوال اٹھایا کہ شرجیل میمن اور ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو دئیے جانے والے اربوں روپے کے اشتہارات کے حوالے سے کوئی حکومتی پالیسی یا قوائد وضوابط سامنے رکھے گئے تھے؟جس کے جواب میں سیکرٹری اطلاعات و نشریات احمد نواز سکھیر ا نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے ابھی تک کوئی پالیسی وضع نہیں ہے اور نہ ہی کوئی قوائد وضوابط بنائے گئے ہیں ۔

شفقت محمود نے کہا کہ اگر کوئی واضح پالیسی اور قوائد و ضوابط ہوتے تو نہ یہ کیس بنتا اور نہ ہی حکومت کو عدالتوں میں پیروی کرنا پڑتی اس کیلئے پالیسی اور قوائد وضوابط کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ سیکرٹری اطلاعات نے اجلاس کو بتایا کہ وزارت کے اندر سیکرٹ فنڈز ختم کردیاگیا ہے یہ سیکرٹ فنڈز2013ء سے ختم کردیا گیا تھا اور یہ خاتمہ عدالت کے حکم پر کیا گیا ہے۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ان کے دور میں سیکرٹ فنڈز کا آڈٹ ہوا تھا۔پی اے سی نے کہا حکومت اشتہارات کی آڑ میں میڈیا کو کنٹرول کرتی ہے۔سید خورشید شاہ نے سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ گزشتہ10سالوں میں اشتہارات کا بجٹ اور اخبارات کو دئیے گئے اشتہارات کی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔

احمد نواز سکھیرا نے کہا کہ پیمرا کے سابق چیئرمین ابصارعالم کو ماہانہ 15 لاکھ تنخواہ کے علاوہ دیگر بھاری الاؤنسز بھی دئیے جاتے تھے،ان کی تقرری سابقہ سیکرٹری اطلاعات نے کی تھی،جس کو عدالت نے اہلیت کی بنیاد پر معطل کردیا ہے۔احمد نوازسکھیرا نے پی اے سی کو بتایا کہ قومی اسمبلی،سینیٹ اور قائمہ کمیٹیوں کی براہ راست کوریج کے لئے پارلیمانی چینلز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگلے چند ماہ کے اندر اس نئے چینلز کی نشریات شروع ہوجائیں گے۔پی اے سی اراکین نے حکومت کے اس اقدام کی تعریف کی اور کہا معاشرے سے کرپشن کے خاتمہ اور جمہوریت کی مضبوطی کی طرف یہ پہلا اقدام ہے۔احمد نواز سکھیرا نے کہا پی ٹی وی کو بہت جلد ڈیجیٹل سسٹم پر منتقل کردیا جائے گا جس سے پی ٹی وی پروگراموں کی کوالٹی بہتر ہوجائے گی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ریڈیو پاکستان میں7کروڑ61لاکھ کرپشن سکینڈل کی تحقیقات کا حکم بھی دیا ہے اس سکینڈل میں ریڈیو پاکستان کے ڈی جی نے نجی کمپنی ایل اینڈ سی کو ایف ایم101پر اشتہارات چلانے کا معاہدہ کرکے قومی خزانہ کو 76ملین کا نقصان پہنچایا اور پی اے سی میں اس پورے معاہدے کو فراڈ قرار دے کر تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔سیکرٹری کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس سکینڈل کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کریں اور معاہدہ منسوخ کرکے قانون کے مطابق معاملات کو آگے چلائیں۔ریڈیو کے ڈی جی نے قواعد سے ہٹ کر نجی کمپنی کو ٹھیکہ دیا تھا اور آڈٹ اعتراض کی روشنی میں تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔پی اے سی نے پی ٹی وی میں جنسی ہراساں کے معاملے کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ جنسی ہراساں کی درخواست دینے والی خاتون کو دوبارہ ملازمت پر بحال کرنے کی بھی ہدایت کردی۔اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ درخواست گزار کے ساتھ ساتھ ملزمان کو بھی پی ٹی وی انتظامیہ نے ملازمتوں سے معطل کردیا تھا جبکہ پی ٹی وی میں جنسی ہراساں روکنے کی ہدایت کی ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…