اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، آن لائن) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ منظور کرلیا۔زاہد حامد نے گذشتہ روز رضاکارانہ طور پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو استعفیٰ پیش کیا تھا۔زاہد حامد نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں ہونے والی تبدیلی میں ان کا براہ راست کردار نہیں تھا اور اسے مشترکہ کمیٹی نے منظور کیا تھا تاہم ملک کو درپیش بحران
کے خاتمے کے لیے وہ عہدے سے مستعفی ہورہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان دھرنا ختم کرنے پر معاہدہ طے پا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ زاہد حامد کے استعفے کے بعد دھرنا قائدین نے آئندہ کی حکمت عملی کے لئے مشاورت شروع کردی ہے،ذرائع کے مطابق اس حوالے سے حکومت اور مظاہرین کے درمیان 6 نکاتی معاہدہ طے پاگیا ہے۔معاہدے کے مطابق مستعفی وزیر زاہد قانون کے خلاف کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ راجا ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ 30 روز میں منظر عام پر لائی جائے گی جبکہ اس رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔حکومت اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق املاک کو پہنچنے والے نقصان کا تعین کیا جائے گا اور وفاقی اور صوبائی حکومت اس کا ازالہ کرے گی۔اس کے ساتھ جو مظاہرین کو سیکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا انہیں تین دن میں رہا کیا جائے گا۔۔معاہدے میں طے پایا کہ 25 نومبر کو حکومتی ایکشن سے متعلق انکوائری بورڈ قائم کیا جائے گا اور ذمہ داروں کا تعین کرکے 30 دنوں میں کارروائی کی جائے گی۔حکومت اور دھرنا مظاہرین کے مبینہ معاہدے میں وفاقی وزیر داخلہ
احسن اقبال اور وفاقی سیکرٹری داخلہ سمیت 5 افراد کے دستخط ہیں۔ تحریک لبیک کی جانب سے خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری اور وحید نور نے دستخط کیے یہ معاہدہ آرمی چیف کے نمائندے میجر جنرل فیض حمید کی وساطت سے طے پایا اور انہوں نے بھی دستاویز پر دستخط کئے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے دھرنے کے باعث بند سڑکیں کھولی جارہی ہیں جبکہ آئی ایٹ سیکٹر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بحال ہونا شروع ہوگئی ہے۔
اس سے قبل ذرائع نے بتایا تھا کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے رضاکارانہ طور پر اپنا استعفیٰ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو پیش کردیا ہے۔اعلیٰ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے یہ استعفیٰ منظور کرلیا جائے گا۔خیال رہے کہ گزشتہ روز زاہد حامد نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ایک گھنٹہ طویل اہم ملاقات کی تھی۔اسلام آباد میں گزشتہ کئی روز سے جاری دھرنے کے مظاہرین کا ابتدائی مطالبہ وزیر قانون زاہد حامد
کو عہدے سے ہٹانا ہی تھا۔ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں ہونے والی تبدیلی کا ذمہ دار دھرنا مظاہرین وزیر قانون زاہد حامد اور حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں اور 22 روز قبل اس معاملے پر فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا شروع کیا گیا تھا۔حکومت نے مختلف حلقوں کی جانب سے آنے والے دباؤ کے پیش نظر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ختم نبوت کے حلف نامے کو اصل حالت میں بحال کردیا تھا لیکن دھرنا مظاہرین وزیر قانون زاہد حامد کے
استعفے کے مطالبے پر بضد رہے۔حکومت نے وزیر قانون کے استعفے کے مطالبے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کی تاہم مذاکرات کے تمام ادوار ناکام ہوگئے تھے۔اس کے بعد حکومت کی جانب سے ہفتہ 25 نومبر کو فیض آباد انٹرچینج کلیئر کرانے کے لیے پولیس اور ایف سی کے ذریعے آپریشن کا آغاز کیا گیا جس میں 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔اس آپریشن کے بعد مظاہرین مزید مشتعل ہوگئے اور ملک کے کئی دیگر شہروں میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ پھیل گیا جس کے بعد حکومت نے آپریشن معطل کردیا اور وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی تازہ ترین ملاقات میں معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔