لاہور(خصوصی رپورٹ)قطر کے شہزادہ شیخ حامد بن جاسم الثانی نے اپنے 5نومبر 2016ءاور پھر 22دسمبر 2016ءکے خطوط میں میاں شریف اور اپنے والد کے کاروباری مراسم اور بالآخر لندن فلیٹس کی سٹیل منٹ کا معاملہ بیان کرنے کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ وہ اس بات کی گواہی دینے کی خاطر پاکستان آنے کو تیار ہیں، یہی بات جب جے آئی ٹی بنی تو انہوں نے دوہرائی تھی،
جے آئی ٹی نے انہیں تین آپشن دیئے تھے، (۱) وہ پاکستان آجائیں (۲) ویڈیو لنک کے ذریعے انٹرویو دیں (۳) جے آئی ٹی قطر آکر ان کا انٹرویو کرلے، شہزادے نے اب ان میں سے آخری آپشن پر رضا مندی کا اظہار کیاہے،روزنامہ خبریں کے رپورٹر ازہر منیرکے مطابق ابتداءمیں پاکستان آنے کی پیش کش کرنے کے بعد اب وہ پاکستان آئے یا قطر میں پاکستانی سفارخانے کے بجائے اپنے دفتر یا محل میں انٹرویو دینے پر اصرار کیوں کررہے ہیں؟ ، اس کی وجہ بہت سادہ ہے ، ایک تصویر ، یہ تصویر وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز کی ہے جس میں وہ جے آئی ٹی کے سامنے کسی ملزم کی طرح بے چارگی سے بیٹھا ہے، ہم پاکستانیوں کیلئے تو یہ ایک عام سا منظر ہے اور ہماری سوچ بھی یہی ہے کہ کیا ہوا اگر وزیراعظم کا بیٹا ایک عام ملزم کی طرح بیٹھا ہے ، لیکن عرب شہزادے کیلئے یہ ایک بالکل مختلف بات ہے ، اس کی وجہ اس کا جائنڈ سیٹ ہے ، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ شہزادہ زندگی میں کبھی کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوا، نہ ان کے ملک میں عدالتیں اس طرح صاحبان اقتدار کو بلاتی ہیں یا بلا سکتی ہیں ، دوسرے وہ پاکستانیوں کو اپنے برابر کا انسان ہی خیال نہیں کرتے، اور کوئی بھی عرب ملک ہو وہاں پاکستانیوں کو ”رفیق پاکستانی “ کہہ کر بلایاجاتا ہے ، رفیق یعنی نائب ، معاون، ”تو ان ”رفیق پاکستانیوں“ کے سامنے مجھے کسی ملزم کی طرح بیٹھنا اور پھر ان کے سوالوں کا جواب دینا پڑے گا“،
یہ تصور ہی تو ان کیلئے ناقابل برداشت ہے، شہزادے نے جب عدالت آنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی تو اس کا خیال تھا کہ وہ ایک ملک کے شہزادے اور سابق وزیراعظم کی طرح پورے پروٹوکول کے ساتھ وہاں جائیگا، خط اور اس کے مندرجات کی تصدیق کریگا، اور واپس آ جائیگا، اللہ اللہ خیر سلا، لیکن جب اس نے یہ تصویر دیکھی جو دنیا میں ہر جگہ ہر شخص انٹرنیٹ پہ دیکھ سکتا ہے اور سوچا کہ اسے اس حالت میں پیش ہونا پڑیگا
تو اس نے پاکستان آنے سے انکار کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے پیش کردہ آپشنز میں سے تیسرے آپشن کا انتخاب کیا، یعنی ٹیم دوحہ آکر اس کے دفتر یا محل میں اس سے تصدیق کرلے، پاکستانی سفارت کانے آنے سے انکار کی وجہ بھی یہی ہے کہ کسی بھی ملک میں کسی ملک کا سفارت خانہ حقیقتاً اس ملک کا حصہ وہتا ہے جس کے اندر میزبان ملک کے قوانین اور قواعد کا اطلاق نہیں ہوتا ، اور یہاں بھی اس سے وہی سلوک ہوسکتا ہے جو پاکستان میں حسین نواز کے ساتھ ہوا،
لہٰذا اس نے سفارتخانے آنے سے بھی انکار کردیا ، اس لئے کہ وہاں جانے کا مطلب تھا پاکستان جانا، اس کے ساتھ اس نے صرف خطوط اور انکے مندرجات کی تصدیق کرنے اور متعلقہ دستاویزات دکھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور انوسٹی گیشن کرانے سے انکار کردیا ہے ، اس لئے کہ ٹیم کے سوالات کا سامنا کرنے کا مطلب ہے وہی ملزم کا ٹیم کے سامنے پیش ہونا جو ایک عرب شہزادے کیلئے کسی طور قابل برداشت نہیں،
مختصراً یہ وہ وجہ ہے جس کی بناءپر شہزادہ حامد نے پاکستان یا پاکستانی سفارت خانے آنے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بجائے جے آئی ٹی کے پیش کردہ تین آپشنز میں سے تیسرے آپشن کا انتخاب کیا ہے، لیکن شہزادے کے پاکستان آنے سے انکار کی وجہ تو یہ ے ، جے آئی ٹی کے اس کے دفتر یا محل جاکر اس سے اس کے خطوط اور انکے مندرجات کی تصدیق کرنے سے انکار کی وجہ کیا ہے ؟ ، یہ بات ابھی تک پردہ راز میں ہے ۔