اسلام آباد(آئی این پی) پانامہ لیکس میں شریف خاندان کے قطر کے حکمران خاندان کی ساتھ ذاتی کاروباری تعلقات کے انکشاف کے بعد 20ارب ڈالر کے ایل این جی معاہدے بھی خطرہ میں پڑ گیا ہے۔ قانون کے مطابق وزیراعظم اربوں روپے کا معاہدہ ذاتی کاروبار میں شریک کسی شخصیت یا کمپنی کے ساتھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا
کیونکہ ایسے معاہدے مفادات کا تضاد (conflict of interests) کے ذمرے میں آتا ہے اور دنیا میں ایسے معاہدے قابل عمل ہی نہیں ہوتے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ میں پانامہ کی سماعت کے دوران شریف خاندان نے خود اقرار کیا ہے کہ ان کے قطری خاندان جو کہ قطرمیں گزشتہ50سال سے حکمرانی کر رہا ہے کے ساتھ کاروباری تعلقات استوار ہیں۔ اس انکشاف کے بعد ایل این جی کا قطر کے ساتھ کئے گئے معاہدے کا مستقبل بھی خطرہ میں پڑ گیا ہے۔۔ تحریک انصاف کے ایک مرکزی لیڈر نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ایل این جی کے معاہدے کو بھی عدالت میں چیلنج کریں گے کیونکہ نواز شریف کے اس معاہدے میں ذاتی مفادات وابستہ ہیں نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی قطر سے اگلے 15سالوں کے لئے ایل این جی درآمد کرنے کے لئے کوششیں کیں تھیں اور آخر کار گزشتہ سال قطر کے ساتھ یہ 20ارب ڈالر کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے کے مطابق قطر پاکستان کو 15سال تک ایل این جی برآمد کرے گا جو پاکستان 20ارب ڈالر سے زائد ادا کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔ معاہدے کے بعد کراچی پورٹ قاسم پر ایل این جی ٹرمینل بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کا ٹھیکہ بھی رینکرو نامی کمپنی کو دیا گیا ہے۔ ایل این جی کا معاہدہ طے ہونے تک نواز شریف نے یہ تمام راز افشا نہیں کئے تھے کہ ان کے
خاندان کے قطری خاندان کے ساتھ کاروباری مراسم ہیں یہ انکشاف گزشتہ ماہ عدالت عظمیٰ میں ہوئے تھے جب انہوں نے خود ہی راز اگل دیئے کہ قطر میں ان کے کاروبار باپ دادا سے چلے آ رہے ہیں۔