اسلام آباد(آئی این پی)قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے اراکین میں تصادم‘ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ، مکوں اور گھونسوں کی بارش کردی ‘ تحریک انصاف کے اراکین نشستوں پر چڑھ گئے ‘ شہر یار آفریدی نے وفاقی وزیر پٹرولیم شاہدخاقان آفریدی پر حملہ کردیا ،جس میں دوسرے ارکان بھی ملوث ہوگئے ،اس دوران ایوان اکھاڑہ بن گیا ،
لڑنے والے ارکان کو چھڑانے کے لئے12 سے زائد سارجنٹس ایوان میں پہنچ گئے اور انہوں نے حصار قائم کر لیا۔ ایوان میں تصادم کی شروعات اس وقت ہوئی جب اپوزیشن جماعتوں نے شاہ محمود قریشی کے نکتہ اعتراض بات کرنے کے بعد دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کو فلور دینے کا مطالبہ شروع کر دیا،اس دوران اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف نعرے بازی کی ۔ وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی ‘ پی پی کے رہنما نوید قمر کے پاس گئے اور ان کو کہاکہ وہ ان کو چپ کرائیں تاکہ وزیر دفاع خواجہ آصف بات کر سکیں۔ شاہد خاقان عباسی کو دیکھ کرتحریک انصاف کے رہنما شہر یار آفریدی نے انتہائی سخت انداز میں کہا کہ یہ کون ہوتے ہیں ہمیں چپ کروانے والے۔ اس تلخ کلامی پر مسلم لیگ(ن) کے مزید ارکان اپوزیشن نشستوں کی طرف آ گئے۔تحریک انصاف و مسلم لیگ (ن) کے ارکان میں تصادم ہو گیا۔ سپیکر نے 15منٹ کیلئے کارروائی روک دی تاہم تحریک انصاف کے اراکین نشستوں کو پھلانگتے ہوئے لڑنے کیلئے پہنچ گئے۔ لاتوں ‘ گھونسوں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ بیچ بچائو کیلئے اس دوران سپیکر کی ہدایت پر 12 سے زائد سارجنٹس ایوان میں آ گئے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر حصار قائم کر لیا۔
تحریک انصاف کے اراکین تصادم کے دوران نشستوں کے اوپر کھڑے ہو گئے اور لڑائی کے بعد باہر نکل گئے۔ قومی اسمبلی میں جمعرات کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کے گلی گلی میں شور ہے نوازشریف چور ہے کہ نعرے نے ایوان کو مچھلی منڈی بنادیا ، ایوان کی کاروائی کے دوران شور شرابے میں سپیکر قومی اسمبلی کی یہ بات دب گئی دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف چور چور کی نعرے بازی کی گئی ، عمران خان کے خلاف چند حکومتی ارکان کے علاوہ اکثریت نے اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں دیا ۔ تقریر کے دوران شاہ محمود قریشی نے نعرے بازی شروع کر دی ۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ فلور دینے کا غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ یہ غیر منصفانہ ہے زیادتی کی گئی ہے۔ اس دوران تحریک انصاف کے تمام ارکان نعرے لگاتے ہوئے فرنٹ کی نشستوں کے قریب جمع ہوگئے ۔ اس دوران زوردار طریقے سے وزیراعظم کے خلاف نعرے لگائے جس سے ایوان میں کسی اور کی کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ ان نعروں کا جواب دینے کیلئے 20کے قریب حکومتی ارکان بھی نشستبوں پر کھڑے ہو گئے اور یو ٹرن یو ٹرن چور چور عمران خان کے نعرے لگائے۔ مخالفین نے ڈاکو ڈاکو کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ سردار ایاز صادق کو کارروائی چلانا مشکل ہو گیا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ حکومتی ارکان کی اکثریت عمران خان کی خلاف نعرے بازی کے دوران خاموشی سے اپنی نشستوں پر بیٹھی تماشا دیکھتی رہی جبکہ وزیر اعظم کے خلاف نعروں کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی ‘ جماعت اسلامی ‘ اے این پی ‘ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دیا۔ دونوں اطراف کے نعروں کے نتیجے میں ایوان مچھلی منڈی اور پہلوانوں کے اکھاڑے کا منظر پیش کرتا رہا۔ غنڈہ گردی نہیں چلے گی‘ غنڈہ گردی کے نعرے لگائے گئے۔ احتجاج میں شہر یار آفریدی ‘ مراد سعید ‘ جمشید دستی پیش پیش تھے۔اس سے قبل وزیر اعظم کے خلا ف تحریک استحقاق پر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان تحریک نصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے قومی کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے ۔ موقف میں تضاد کی وجہ سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم کی تینوں تقاریر کا ذکر کیاہے ان تینوں کو باریک بینی سے دیکھا جائے گا۔ دلائل سے خالی بیان کے بعد حکومت میں شام کو کلاس لگتی ہے کہ کون پاس ہوا کون کون فیل ہوا ہے۔ حکومتی ارکان بھی سمجھ رہے ہیں کہ ان کا استحقاق بھی مجروح ہوا ہے مگر وہ اس کا اظہار نہیں کر سکتے۔ ہم نے سمجھا یا ہے اور اس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں پارلیمنٹ کی عزت کا معاملہ ہے۔ نئے نئے انکشافات پر پلستر اور پیوند کاری کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
وزیر اعظم کے دفاع میں وہ وکلاء کے دلائل میں دو قطری خطوط نے جنم لیا پہلے نے دوسرے قطری خط کو پیدا کیا خطرہ ہے کہ تیسرا وکیل آئے گا تو اس سے تیسرا قطری خط جنم لے گا۔ استثنیٰ کے حوالے سے آئینی شقوں کا سہارا لیتے ہوئے برقعہ اوڑھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اب بھی حکومت تاک میں ہے کس طرح مزید پیوند کاری کی جائے ۔ اگر پارلیمنٹ میں کہے گئے ایک ایک لفظ کی وقعت ہے تو غلط بیانی کا نوٹس لیا جا سکتا ہے کیونکہ ایک ایک لفظ لکھا اور اس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ میں کس موقع پر کیا کہا گیا۔ وزیر اعظم کے عام جملے نہیں تھے موقف تھا آج وزیر اعظم کے اس موقف سے کنارہ کشی کیوں کی جا رہی ہے۔ کیا پارلیمنٹ بے حیثیت ہے کیا الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وزیر اعظم اپنے کسی موقف پر قائم نہیں رہے نیا پینترا اختیار کر لیا جاتا ہے۔ حکومتی وکلاء نے عدالت میں معاملہ ہاتھ سے کھستے دیکھ کر عدالتی دائرہ کار پر جرح شروع کر دی ہے کہ صبر و تحمل سے معاملے کو دیکھیں۔ آئین کے تحت سوموٹو نوٹس پر وسیع اختیارات ہیں اس سے کوئی آنکھ اوجھل نہیں کر سکتا۔ پارلیمنٹ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ ان کو کیا پتہ ہم خود مختار ہیں انڈا دیں یا بچہ دیں ہم خود مختار ہیں۔ بادشاہت ہے ارکان کون ہوتے ہیں ہم سے پوچھنے والے۔ بادشاہ کی مرضی کو قانون تصور کر لیا گیا ہے میرا قانون کہتا ہے کہ قوم پر حاکم اور محکوم کی سوچ مسلط کی جا رہی ہے۔
جمہوریت میں اس کی گنجائش نہیں ہے ،حاکم وقت پر آئین قانون لاگو ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم نے جو کہا ہے وہ کیوں خاطر میں نہ لایا جائے ،چلیں وزیراعظم نے جو موقف سپریم کورٹ میں اختیار کیا وہ یہاں آ کر بھی بیان کر دیتے ۔ یہاں تمام دستاویزات سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم ایوان میں کاغذ لہراتے ہیں۔ جب ان سے برآمد ہوئی ررقم کی ترسیل کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا گیا کہ اس دور میں پرچی اور اونٹوں پر کاروبار ہوتا تھا۔ اب پرچہ سے پرچہ بن گیا ہے اور پے درپے قطری خط آ رہے ہیں