اسلام آباد(آن لائن)جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ سنی سنائی باتیں کوئی ثبوت نہیں ہوتیں،ضرورت پڑی تو کسی کو بھی بلا سکتے ہیں ،کسی کی پوری زندگی سکروٹنی نہیں کر سکتے ،2006 سے قبل کیا ہوتا رہا ،وزیر اعظم کے وکیل کو بتانا پڑے گا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پاناما کیس کی سماعت کی ۔
پاناما کیس میں عمران خان کے وکیل نعیم بخاری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ۔سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اور ان کے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے، کمپنی کا بیریئر سرٹیفکیٹ پرائز بانڈ نہیں ہوتا کہ جس کے پاس ہو آف شور کمپنی اس کی ہوگی، قانون کے مطابق بیریئر سرٹیفکیٹ سے متعلق آگاہ کرنا ضروری ہے،قانون کے اطلاق سے فلیٹس کے ملکیت کی منتقلی تک بیریئر کا ریکارڈ دینا ہو گا۔
رجسٹریشن کے نئے قانون کا اطلاق سب پر ہوتا ہے، شریف خاندان کے بقول 2006 سے قبل بیریئر سرٹیفکیٹ قطری خاندان کے پاس تھے، اس لئے شریف خاندان کو بھی سرٹیفکیٹ کا قطری خاندان کے پاس ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔نعیم بخاری نے کہا کہ بلیک لاء� ڈکشنری کے مطابق زیرکفالت وہ ہوتا ہے جس کیاخراجات کوئی دوسرا شخص برداشت کرے، نوازشریف نے مریم کو کروڑوں روپے بطور تحفہ دیے، مریم نواز کے پاس آف شور کمپنیوں کے لیے پیسا نہیں تھا،آف شور کمپنیوں کے لیے مریم کو رقم نوازشریف نے دی۔
ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی کے بعد کفالت اس کا شوہر کرے جبکہ ریکارڈ کے مطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی کوئی آمدن نہیں تھی۔ جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ اگر آپ کی تعریف مان لیں تو کیا مریم حسین نواز کے زیر کفالت ہیں، ابھی بھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے۔ آپ کے بقول شریف خاندان نے یہ فلیٹس 1993 اور 1996 کے درمیان خریدے جب کہ شریف فیملی کے بقول انھیں فلیٹس 2006 میں منتقل ہوئے، جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ کیا والد کے ساتھ رہنے والا زیرکفالت ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں کوئی نیا نکتہ بیان کریں۔
عمران خان کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ ہم عدالت سے وزیراعظم کی نا اہلی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے عدالت کی بہترین معاونت کی ہے۔نعیم بخاری کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل میں کہا کہ وہ نعیم بخاری کی جانب سے دیئے گئے تمام دلائل سے متفق ہیں۔ میرا کوئی بچہ یا فیملی نہیں لیکن یہ قوم ہی میری فیملی ہے، یہ ایک خاندان بامقابلہ بیس کروڑ عوام کا کیس ہے۔
عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کے لیے آتے ہیں، ایک طرف مریم کہتی ہیں کہ ان کی آمدن نہیں دوسری طرف وہ امیر ترین خاتون ہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ ہر روز ایک ارب چالیس کروڑ روپے چھپائے جارہے ہیں ، ان رقوم کو چھپانے کے لیے ماہر افراد کی خدمات لی جاتی ہیں، انہیں ساڑھے 7 ارب ڈالرز بیرون منتقل کرنے کی بات سن کر افسوس ہوا، یہ پیسہ ملک کا ہے، اسحاق ڈار نے اربوں روپے دبئی منتقل کرنے کا اعتراف کیا، نواز شریف پاناما کیس میں براہ راست ملوث ہیں، قطری شہزادہ مین آف دی میچ ہے اور شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے، قطری خط رضیہ بٹ کا ناول ہے، قطری شہزادہ نواز شریف کے لیے ریسکیو 1122 ہے۔
شیخ رشید کے دلائل پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی۔ شیخ رشید نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے دو افراد کو زیر کفالت ظاہر کیا، وہ دو افراد ان کی اہلیہ اور مریم نواز ہیں، قطری خط کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں، یہ بیان حلفی کے بغیر اور سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے، سنی سنائی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا، قانون کے مطابق زبانی ثبوت براہ راست ہونا چاہیے۔
اس خط کے پیچھے اصل چہرہ سیف الرحمن کا ہے، پورٹ قاسم پاور پلانٹ سیف الرحمن کو دیا گیا،ایل این جی کا ٹھیکہ بھی سیف الرحمن کی کمپنی کو دیا گیا۔ شیخ رشید نے کہا کہ فروری 2006 کو مریم نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر لندن میں دستخط کیے، ڈیڈ پر بطور گواہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر جبکہ وقار احمد کے دستخط ہیں، حسن نواز نے 4 فروری 2006کو ڈیڈ پر دستخط کیے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی سفارتخانے سے تصدیق نہیں ہوئی، جس پر شیخ رشید نے کہا کہ جب ایک فرد لندن دوسرا جدہ میں ہو تو تصدیق کیسے ہوسکتی ہے۔
جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ جس ٹرسٹ ڈیڈ کا آپ ذکر کررہے ہیں وہ نیلسن اور نیسکول کی نہیں، لگتا ہے کومبر گروپ کی ٹرسٹ ڈیڈ غلطی سے جمع کرائی گئی، نیلسن اور نیسکول والی ٹرسٹ ڈیڈ بعد میں جمع کروائی گئی، کیا پنڈی میں کوئی جائیداد بغیر رجسٹری بیچی جا سکتی ہے۔ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ پنڈی میں گواہ نہ ہوں تو ایک سائیکل بھی نہیں بکتی، اللہ تعالی نئے راستے دکھانے کے لیے غلطیاں بھی کرواتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر دونوں دستخط کرنے والے ٹرسٹ ڈیڈ کو تسلیم کریں تو پھر کیا صورتحال ہو گی۔ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ میرا ایمان ہے آپ کو دستاویزات کی حقیقت کا علم ہے، جج صاحب آپ نے کیس پڑھا ہوا ہے، دوسرے فریق نے نہیں۔ ہمیں وقار احمد کے دستخطوں پر بھی اعتراض ہے۔
مریم نواز کے بینیفیشل مالک ہونے کی دستاویز کسی نے چیلنج نہیں کی، 19 سال کی عمر میں ہمارے بچوں کا شناختی کارڈ نہیں بنتا، شریف خاندان کے بچے ارب پتی بن جاتے ہیں، طارق شفیع نے بیان حلفی میں کہا بارہ ملین درہم لے کر دے دئیے، شریف خاندان بتائے کہ 1980 سے 2006 تک یہ پیسے کہاں رہے، یہ کہنا درست نہیں کہ دوبئی میں کاروبار گدھوں پر ہوتا تھا، 1980 میں دوبئی میں 31 بینک تھے بتایا جائے کہ کس کے ذریعے رقم منتقل ہوئی۔ برطانیہ میں الزام لگ جائے تو ساری جائیداد بک جانے پر بھی جان نہیں چھوٹتی۔ شریف خاندان شروع سے ہی حقائق چھپاتا رہا ہے۔ شریف خاندان جدہ مل میں کام کرنے والے کسی مسلمان کا نام ہی بتا دے۔
شیخ رشید نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 62,63 پر پورا نہ اُترنے والوں کو نا اہل قرار دیا ہے اس پر عدالت نے کہا کہ حالات اور کیس کی نوعیت کے مطابق فیصلے کئے ۔شیخ رشید نے عدالت سے کہا کہ سیاسی ورکر ہوں اگر دلائل کے دوران مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی تو اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل شروع کئے تو عدالت سے استدعا کی کہ وقت کم ہے عدالت چاہے تو کل دلائل شروع کر سکتا ھوں، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آج ج آپ وارم اپ کر لیں،وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خود کو صرف وزیر اعظم تک محدود رکھوں گا۔
وزیر اعظم، اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کو نااہل کرنے کی درخواست کی گئی،جواب دہندگان سے ٹیکس وصولی کی عمومی استدعا کی گئی،ٹیکس وصولی کس شخص سے کرنی ہے یہ بھی نہیں بتایا گیا،پی ٹی آئی نے میگا کرپشن کیسز کی تحقیقات کی بھی استدعا کی،میگا کرپشن کیسز سپریم کورٹ میں زیر التواء ہیں،وزیر اعظم اور ان کا اہل خانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی استدعا کی گئی تاہم پی ٹی آئی کے دلائل میں ای سی ایل کا ذکر کہیں نہیں کیا گیا،جس استدعا پر زور نہ دیا جائے وہ خود ہی ختم ھو جاتی ہے۔
استدعا ختم ھونے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں،اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کو لندن فلیٹس تک محدود رہنے کا کہا تھا،کسی کی پوری زندگی کی سکروٹنی نہیں کر سکتے،اپ کیس کا حصہ تاخیر سے بنے اس لیے شائد آپ کو علم نہیں ہوا۔اس پر وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ تمام ایشوز پر عدالت کی معاونت کروں گا،عدالت کا فوکس پانامہ لیکس پر ہے ،وزیر اعظم کا پانامہ لیکس میں کہیں نام بھی نہیں تو کیا کروں،اس پر آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ لندن فلیٹس کے علاوہ بھی بہت کچھ عدالت کے سامنے ہے،2006 سے پہلے کیا ھوتا رہا آپ کو سب بتانا ھو گا۔
اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ شہباز سریف، عباس شریف، رابعہ شہباز اور دیگر کے نام بھی لیے گئے،تاثر دیا گیا کہ سارے خاندان نے مل کر لوٹا،یہ پوری فیملی ایک دوسرے سے لنک اپ ہے ۔اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ اپنے موکل نواز سریف تک محدود رہیں،مخدوم علی خا ن نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے وزیر اعظم کے علاوہ خاندان بھر کے نام لیے گئے،ایسے بھی نام لیے گئے جو فریق بھی نہیں تھے۔
اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وہ تو نعیم بخاری اور شجاعت عظیم کو نوٹس جاری کریں، لیکن اس حوالے سے درخواست نہیں کی،مخدوم علی خان نے کہا کہ درخواست گزاروں نے تمام وزن عدالت پر دالنے کی کوشش کی اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت جب صرورت محسوس کرے گی جن کو چاہے گی نوٹس جاری کر کے طلب کرے گی، مخدوم علی خان نے کہا کہ میں سات روز سے دلائل سن رہا ہوں تمام حقائق سے پردہ اٹھانا چاہتاہوں، عدالت نے مزید سماعت آج تک کے لئے ملتوی کر دی ،وزیر اعظم کے وکیل آج بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
’’2006 سے پہلے کیا ہوتا رہا یہ آپ کو بتانا پڑے گا‘‘ سپریم کورٹ نے ایسا سوال پوچھ لیا کہ شریف خاندان شدید پریشان
11
جنوری 2017
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں