ہفتہ‬‮ ، 16 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مسئلہ کشمیر،نوازشریف نے چار نکاتی امن فارمولا پیش کر دیا ،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب

datetime 30  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیویارک (نیوزڈیسک)وزیر اعظم محمد نواز شریف نے علاقے میں امن اور بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کےلئے چار نکاتی امن فارمولا پیش کر دیا ہے اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ 2003میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جنگ بندی کے سمجھوتے کا احترام کر ے ¾ اس مقصد کےلئے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر مشن کو توسیع دی جائے ¾دونوں ممالک طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی سے گریز کریں ¾ کشمیر سے فوج کی واپسی کےلئے اقدامات اٹھائے جائیں اور دونوں ممالک سیاچن سے غیر مشروط طورپر فوجیں واپس بلا لیں اور کہا ہے کہ امن ¾ استحکام اور خوشحالی مذاکرات کے ذریعے حاصل ہوسکتے ہیں رابطے توڑنے سے نہیں ¾ اتفاق رائے اور بات چیت کے ذریعے ہی مسائل حل کئے جاسکتے ہیں اور اس کےلئے عالمی برادری کو بھی اپنا کر دار ادا کر نا ہوگا ¾ افغانستان میں امن واستحکام میں تعاون کےلئے تیار ہیں مگر افغان حکومت کو بھی تعاون کر نا ہوگا ¾عالمی برادری دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لے ¾ فلسطین اور کشمیرکے مسائل حل کئے بغیر ان خطوں میں امن نہیں آسکتا ¾ پاکستان جنوبی ایشیاءمیں ہتھیاروں کی دوڑ چاہتا ہے اور نہ ہی اس میں شامل ہے تاہم پاکستان اپنی سکیورٹی کی ضروریات اورخطے میں بڑھتے ہوئے ہتھیاروںسے بھی آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔بد ھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس اجلاس کی صدارت سنبھالنے پر مسٹر مارگنز کو مبارکباد دی جبکہ 69میں اجلاس کے صدر سام کوتیسا کی خدمات کو بھی سراہا ۔نواز شریف نے کہاکہ 70سال قبل ایک تباہ کن جنگ کے مشاہدے کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا جس کا مقصد مساوات کے اصولوں ¾ تعاون اوراجتماعی اقدامات کے ذریعے عالمی امن و خوشحالی لانا تھا ۔سرد جنگ کی مجبوریوں کے باوجود اقوام متحدہ نے عالمی برادری کےلئے امید کی کرن ¾آزادی کی پیامبر ¾مظلوم لوگوں کی وکیل اور ترقی کےلئے ایک ذریعے کے طورپر اپنے آپ کو پیش کیا لیکن اقوام متحدہ کے ہم جیسے لوگ اب بھی ہتھیاروں کو شکست دینے اور عالمی خوشحالی اورآزادیوں کے فروغ میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔وزیر اعظم نے کہاکہ بڑی طاقتوں کے درمیان تصادم کی کیفیت آج بھی قائم ہے دنیا کے بہت سے خطوں میں بحران ہے دہشتگردی پھیل رہی ہے ¾ غربت اور پسماندگی ختم نہیں ہوسکی ¾ انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں جاری ہیں ہم مہاجرین اور زبردستی نکالے گئے پناہ گزینوں کو بھی دیکھ رہے ہیں اور یہ سلسلہ نصف صدی سے جاری ہے ۔دنیا کے سیارے پر موجود لوگوں کو خطرات درپیش ہیں تاہم وزیر اعظم نے کہاکہ یہ صورتحال ہمارے لئے ایک اہم موقع بھی ہے اس وقت باہمی جڑی ہوئی دنیا کے پاس مالیاتی ¾ سائنسی اور تنظیمی صلاحیتیں موجود ہیں جن سے وہ تمام رکن ممالک کو درپیش مشترکہ خطرے اور باہمی چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اس تاریخی سربراہ اجلاس میں ہم نے 17ٹھوس ترقیاتی مقاصد حاصل کر نے کا عزم کیا ہے اور سب لوگوں کےلئے مساوی ترقی کو فروغ دینے کاعہد کیا ہے ۔وزیر اعظم نے کہاکہ اس وقت اصل چیلنج اجتماعی سیاسی دانش کو متحرک کرنا اور وسائل کو استعمال کر نا ہے تاکہ ہم اس ایجنڈے پر جامع انداز میں عمل کر سکیں جس کی ہم نے توثیق کی ہے ۔پاکستان پہلے ہی 2015کے بعد کے ترقیاتی ایجنڈے پر قومی مقاصد کے حصول کےلئے اقدامات شروع کر چکا ہے ہم ان مقاصد اور اہداف پر عملدر آمد اور اس کی مانیٹرنگ کےلئے ٹھوس طریقہ کار بنا چکے ہیں ۔وزیر اعظم نے کہاکہ اس سال کے آخری میں پیرس میں ہم نے مشترکہ طورپر ان مقاصد کےلئے اپنے عزم کا اظہار کر نا ہے لیکن مالیاتی تبدیلی سے درپیش خطرات کے بارے میں ہمیں اپنی ذمہ داری کو سمجھناچاہیے مشترکہ اور اجتماعی عزم کی راہ میں انفرادی مفادات کو حائل نہیں ہونا چاہیے جو ہمیں اس زمین کی بہتری کےلئے اقدامات سے روکیں ۔نواز شریف نے کہاکہ اقوام متحدہ کی 70ویں سالگرہ پرہمیں چاہیے کہ اس عالمی ادارے کو موجودہ اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے موثر انداز میں مقابلے کےلئے تیار کریں جو ہمیں درپیش ہیں پاکستان سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ میں جامع اصلاحات کی حمایت کرتا ہے ہمیں ایک ایسی سلامتی کونسل کی ضرورت ہے جو زیادہ جمہوری ¾نمائندہ ¾ قابل اعتماد اور شفاف ہو ۔ایک ایسی کونسل جو تماممالک کے مفادات کی عکاس ہو اور مساوات کے عالمی اصول کے مطابق ہو نہ کہ ایسی کونسل جسے طاقت اور قابل تکریم کلب میں توسیع دے دی جائے وزیر اعظم نے کہاکہ امن کا قیام اقوام متحدہ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے پاکستان کو اس حوالے سے ایک بڑا حصہ دار ہونے پر اپنے تاریخی اور موجودہ کر دارپر فخر ہے ہم عالمی امن اور سلامتی کےلئے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں انہوںنے کہاکہ پاکستان دہشتگردی کا بنیادی شکار ہے ہم نے ہزاروں جانیں قربان کی ہیں جن میں شہری اور ہمارے جوان شامل ہیں ہمارے بے گناہ بچوں سمیت اس بہنے والے خون نے ہمارے عزم کو پختہ کیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے سے اس لعنت کو ختم کر کے دم لینگے ہم ہر قسم کی دہشتگردی کے خلاف لڑیں گے چاہیے وہ دہشتگردی کر نے والوں ہوں یا ان کے معاون ہوں ۔ہمارا آپریشن ضرب عضب دہشتگردوں کےخلاف کہیں بھی چلائی جانے والی سب سے بڑی مہم ہے جس میں ہماری سکیورٹی فورسز کے ایک لاکھ اسی ہزارجوان حصہ لے رہے ہیں اور تمام دہشتگردوں کا صفایا کر نے میں اہم کامیابی حاصل ہوئی ہے اور ہم مقصد کے حصول تک یہ کام جاری رکھیں گے ۔اس آپریشن کےساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان بنایا گیاجس کے تحت پولیس اور سکیورٹی اقدامات ساتھ ساتھ سیاسی وقانونی اقدامات اور سماجی و اقتصادی پیکج تیار کئے گئے جن کا مقصد پر تشدد انتہا پسندی سے نمٹنا ہے ۔وزیر اعظم نے کہاکہ جب تک ہم بنیادی وجوہا ت پر توجہ نہیں دینگے ہم دہشتگردی کے عالمی خطرے کو شکست نہیں دے سکتے ۔غربت اورجہالت اس مسئلے کا جزو ہیں انتہا پسندانہ نظریات کی مخالفت ہونی چاہیے لیکن ہمیں دہشتگردوں کی تشریحات اور ان کے نظریات کا تمام مسائل اور ظلم وتشدد سے نمٹ کر بھی جواب دینا ہے وہ ظلم و ستم جو دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے خلاف جاری ہے بد قسمتی سے بعض عناصر دہشتگردی کے خلاف عالمی جدوجہد کو مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبانے کےلئے استعمال کر ناچاہتے ہیں ۔نواز شریف نے کہاکہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی آج اہم سکیورٹی چیلنج بن چکی ہے تشدد اور لسانی وفرقہ وارانہ تصادم بڑھ رہا ہے داعش آگے آرہی ہے خطے کے بعض ممالک آج عدم استحکام اور تصادم کا مرکز بن چکے ہیں اور دیگر بھی اس کی گرفت میں آرہے ہیں فلسطین کا المیہ بڑھ رہا ہے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دوریاستی حل مزید دور ہورہا ہے جس کی بنیادی وجہ مقبوضہ قوتوں کا اپنی ضد پر اڑ جانا ہے ۔نواز شریف نے کہاکہ آج فلسطین کا جھنڈا یہاں بلند ہو چکا ہے ہمیں امید ہے کہ یہ میچ ایک پہلا قدم ہے اور ہم منتظر ہیں کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کاایک مکمل رکن کی حیثیت سے ہم خوش آمدید کہیں ۔وزیر اعظم نے کہاکہ مسلمان دنیا بھر میں مشکلات کا شکار ہیں فلسطینیوں اور کشمیریوں پر غیر ملکی تسلط قائم ہے ۔مسلمان مہاجرین سے بھی امتیازی سلوک ہورہا ہے یہ لوگ جنگ یا ظلم و ستم کی وجہ سے گھر بار چھوڑ نے پر مجبور ہوئے عالمی برادری کو مسلمانوں کے خلاف نا انصافی پر توجہ دینا ہوگی ۔وزیراعظم نے کہاکہ ہم ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جامع جوہری سمجھوتے کا خیر مقدم کرتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفارتی رابطے اور کثیر ملکی طورپر مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں یہ خطے او ردنیا میں امن اور سلامتی کے لئے اچھا شگون ہے ۔وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان افغانستان تعلقات کابل میں قومی یکجہتی کی حکومت کے بعد مثبت سمت میں بڑھے ہیں افغان حکومت کی درخواست پر عالمی برادری کے تعاون سے پاکستان نے افغان مفاہمت عمل کو آگے بڑھانے کےلئے اہم اقدامات اٹھائے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کاآغاز ہوا جو ایک غیر معمولی ابتداءتھی لیکن بد قسمتی سے بعض واقعات کے باعث یہ عمل رک گیا اور اس کے بعد عسکری حملے بڑھ گئے ہیں جن کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں پاکستان مذاکراتی عمل اور افغانستان میں امن واستحکام کے فروغ میں مدد دینے کے اپنے عزم پر قائم ہے تاہم اس وقت ہی ہم ایسا کرسکتے ہیں جب ہمیں افغان حکومت کی طرف سے بھی مطلوبہ تعاون ملے ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ۔نواز شریف نے کہاکہ بڑی طاقتوں سمیت عالمی برادری کی طرف سے افغانستان میں امن کا عمل جاری رہنے کے بارے میں خواہش سے ہماری حوصلہ افزائی ہے پاکستان افغانستان اور خطے میں امن و خوشحالی کے فروغ کےلئے چین کے فعال کر دار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ہم چین کے ایک پٹی ¾ ایک سڑک کے نظریے کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔صدر شی جن پنگ کی طرف سے دورہ پاکستان کے دور ان اعلان کر دہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے خطے میں اقتصادی استحکام اور اس خطے کے اندر اور باہر خوشحالی آئےگی ۔یہ جنوب ¾ جنوب تعاون کا ایک اہم نمونہ ہے ہم روس کی طرف سے ایشیائی تعاون بڑھانے کے بارے میں دلچسپی کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں شنگھائی تعاون کونسل جس کا پاکستان مکمل رکن بن رہا ہے علاقائی رابطے بڑھانے کا اہم ذریعہ ثابت ہوگی ۔نواز شریف نے کہاکہ جنوبی ایشیاءکی تاریخ مواقع سے فائدہ نہ اٹھانے سے بھری پڑی ہے اور اس کا نتیجہ ہمیں خطے میں غربت اور پسماندگی کی شکل میں ملا ہے ۔میری حکومت کی اولین ترجیح ترقی ہے اور ہم پر امن ہمسائیگی چاہتے ہیں ہمارے لوگوں کو امن سے خوشحالی کی ضرورت ہے امن مذاکرات سے حاصل ہوسکتا ہے رابطے توڑنے سے نہیں ۔1997ءمیں جب ہم نے بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات شروع کئے تو دونوں ممالک نے دو اصولوں پر اتفاق کیا کہ کشمیر اور امن وسلامتی پر آگے بڑھیں گے جن کے ساتھ ساتھ دہشتگردی سمیت چھ دیگر مسائل پر بھی ہوئی ۔آج بھی ان دو مسائل کی بنیادی اور ہنگامی حیثیت برقرار ہے جس پر توجہ دینی کی ضرورت ہے کشمیریوں کے ساتھ صلاح ومشورہ اس تنازع کا بنیادی حصہ ہے کیونکہ اس سے ہی ہم پر امن حل کی طرف بڑھ سکتے ہیں کشمیرکا مسئلہ 1947سے حل طلب ہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں پرآج تک عمل نہیں ہوسکا کشمیریوں تین نسلیں ٹوٹتے وعدے اور بے انتہا ظلم و تشدد دیکھ چکی ہیں ایک لاکھ سے زائد افراد حق خود ارادیت کی جدوجہد میں جانیں دے چکے ہیں یہ اقوام متحدہ کی بڑ ی ناکامی ہے ۔نواز شریف نے کہاکہ جب میں نے جون 2013میں تیسری بار وزارت عظمیٰ سنبھالی تو میری پہلی ترجیح بھارت کےساتھ تعلقات کو معمول پر لانا تھا میں نے بھارتی قیادت پر زور دیا کہ ہمارا مشترکہ دشمن غربت اورپسماندگی ہے ہماری شراکت داری تعاون میں ہونی چاہیے تصادم میں نہیں لیکن آج بھی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بڑھ رہی ہیں خواتین اور بچوں سمیت شہری قتل ہورہے ہیںدانشمندی ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارا ہمسائیہ ملک پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش باز نہیں آرہاہے دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ کشیدگی کی وجوہات پر توجہ دیں اور مزید کشیدگی بڑھنے سے روکنے کےلئے ہر ممکن اقدامات قائم کریں اس بنا ءپر میں چاہتا ہوں کہ آج کا یہ موقع ایک نیا امن اقدام پیش کر نے کےلئے استعمال کروں جن پر سادگی سے عملدر آمد ہوسکتا ہے ۔نواز شریف نے اپنا امن اقدام پیش کرتے ہوئے کہاکہ سب سے پہلے ہمیں پاکستان اور بھارت کو 2003ءمیں کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے بارے میں ہونے والی مفاہمت پرمکمل عملدر آمد اور اس کا احترام کرناچاہیے اس مقصد کےلئے ہم زور دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصر مشن کو توسیع دی جائے تاکہ وہ جنگ بندی کاجائزہ لے سکیں ۔ہماری دوسری تجویز یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت اس عزم کااظہارکریں کہ ہم طاقت استعمال کریں گے اور نہ ہی کسی صورتحال اس قسم کی دھمکی دینگے ۔یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا بھی بنیادی عنصر ہے تیسرا یہ کہ کشمیرسے فوجیں نکالنے کےلئے اقدامات اٹھائے جائیں چوتھے یہ کہ سیاچن سے غیر مشروط طورپر باہمی طورپر فوجیں واپس بلائی جائیں جو دنیا کا سب سے بلند ترین جنگی میدان ہے ان امن اقدامات کے ذریعے ہم خدشات کو کم کر سکتے ہیں اور پاکستان و بھارت جارحانہ اور جدید ہتھیاروں کے نظام سے بچنے کےلئے وسیع البنیاد اقدامات پر اتفاق کرسکتے ہیں نواز شریف نے واضح کیا کہ پاکستان جنوبی ایشیاءمیں ہتھیاروں کی دوڑ چاہتا ہے اور نہ ہی اس میں شامل ہے تاہم پاکستان اپنی سکیورٹی کی ضروریات اورخطے میں بڑھتے ہوئے ہتھیاروںسے بھی آنکھیں بند نہیں کر سکتا جو ہمیں اپنی سکیورٹی برقراررکھنے کےلئے ضروری اقدامات پر مجبور کرتے ہیں ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے پاکستان جوہری تخفیف اسلحہ اورعدم پھیلاﺅ کی حمایت جاری رکھے گا ہم نے جوہری سلامتی کےلئے اعلیٰ ترین معیار قائم رکھا ہے فاور اپنی جوہری تنصیبات اور ذخائر کے تحفظ اور سکیورٹی کو یقینی بنایا ہے جنوبی ایشیاءکو عسکری استحکام کی ضرورت ہے اور اس کےلئے جوہری تحمل ¾ روایتی توازن اور تنازعات کے حل کی طرف سنجیدہ مذاکرات کرنا ہونگے ۔ہم جنوبی ایشیاءمیں امن اور استحکام کا روشن دور شروع کر نے کےلئے اپنا کر دار ادا کر نے کو تیار ہیں جو ہمارے لوگوں اور آنے والی نسلوں کا ہم پر قرض ہے ۔



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…