لاہور( نیوز ڈیسک ) چودھری نثار علی خان کا یہ کہنا کہ سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں ، یہ تاثر سو فیصد درست نہیں ۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فوج اور سیاستدانوں کے تعلقات میں سب اچھا نہیں ہے ۔تقریباً ہر سطح پر یہ تاثر جڑ پکڑ رہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں پورے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے ۔اطمینان کی ایک نئی فضا جنم لے رہی ہے اور عوام کی نگاہ میں فوج کے امیج اور اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے اور اس کے ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک غیر متنازعہ قومی ہیرو کا درجہ حاصل کر چکے ہیں ۔اس حوالے سے دنیا ٹی وی کے پروگرام ’’دنیا کامران کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور پروگرام کے میزبان کامران خان نے بتایا کہ گزشتہ تین ماہ میں ایک پر اسرار صورتحال نے جنم لیا ہے ۔چوٹی کے کئی سیاستدانوں نے اعلیٰ سطح پر فوج کے حوالے سے شدید متنازعہ بیانات د یئے ہیں یا اس کے کردار کے حوالے سے متعدد خبریں میڈیا میں ایک منظم منصوبے کے تحت پھیلائیں ،فوجی حلقوں میں یہ تاثر بھی جڑ پکڑ رہا ہے کہ شاید یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے اس کے تانے بانے پاکستان سے باہر پاکستان مخالف قوتوں سے جا ملتے ہوں اور یہ خدشہ بھی ہے کہ فوجی قیادت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کو بریک لگائی جائے ، ان تمام باتوں کو مفروضہ بھی تسلیم کر لیا جائے تو گزشتہ تین ماہ میں جس طرح فوج کا کردار میڈیا میں موضوع بحث رہا ہے ،وہ انتہائی پریشان کن پیش رفت ہے ۔اس صورتحال کی ابتدا 16جون کو ہوئی جب آصف زرداری نے سندھ میں وفاقی اداروں کی کرپشن کے خلاف تحقیقات پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا”ہماری کردار کشی کرنا چھوڑ دو،اگر ہم نے آپ کی شروع کی تو پتہ نہیں قیام پاکستان سے آج تک کتنے جرنیلوں کی شروع ہوجائے گی۔ آپ نے تین سال رہنا ہے ،ہمیشہ کے لئے ہم نے رہنا ہے ۔اگر ہمیں تنگ کرنے کی کوشش کی تو ہم آپ کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے “آصف زرداری کے اس بیان نے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا۔عوام کی نظروں سے اوجھل فوجی قیادت میں بھی غصے کی لہر دوڑ گئی ۔اسی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف کو زرداری سے اسی روز طے شدہ ملاقات کو منسوخ کرنا پڑا۔معاملہ شاید یہاں تھم جاتا،یا دب جاتا یا فوجی صفوں میں جاری غصہ تحلیل ہو جاتا کہ اچانک الطاف حسین نے فوجی قیادت کے خلاف زبانی گولہ باری شروع کردی ۔ان کی ایک کے بعد ایک تقریر فوجی قیادت کے صبر کاامتحان لیتے نظر آرہی تھی۔انہی تقاریر میں بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کو پکارنے کے عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اس پورے ماحول میں جب فوج حالت جنگ میں تھی،پاکستان کی بقا کے لئے کراچی سے لے کر قبائلی علاقوں تک دہشت گردوں کا قلع قمع کر رہی تھی ، انتہائی حساس حالات میں یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ سیاستدان اس نازک صورتحال کو بڑھاوا دینے کے بجائے سنبھالیں گے لیکن تحریک انصاف کے دھرنے کے پورے ایک سال بعد اچانک حکمران مسلم لیگ ن کی اہم ترین شخصیات نے دھرنے کے حوالے سے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور موجودہ آرمی چیف کے دست راست جنرل ظہیر الاسلام پر الزامات در الزامات عائد کرنا شروع کئے اوراس بات پر اصرار کیا گیا کہ وہ در اصل جنرل راحیل شریف کے ناک کے نیچے گزشتہ سال موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاری کر چکے تھے اور یہ بھی کہ وہ شاید جنرل راحیل شریف کے خلاف بھی سازش کر رہے تھے ۔یہ بات کبھی وزیر دفاع خواجہ آصف کر رہے تھے کبھی اس کا اشارہ شہباز شریف دیتے تھے کہ اچانک 14اگست کو یوم آزادی پر وزیر اعظم نواز شریف کے قریب ترین مشاہد اللہ خان نے سنگین تنائو کے اس ماحول میں مبینہ آڈیو ٹیپ کے حوالے سے ایک بم پھوڑ دیا۔ گو کہ حکومت کی جانب سے اس کی سختی سے تردید کی گئی لیکن یہ وہی الزام تھاجس کی تحقیقات کا وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف مشاہد اللہ خان کے اس انٹرویو سے کہیں پہلے خود مطالبہ کر چکے تھے ۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یوم آزادی پر الزامات کی ایک زنجیر مکمل تھی جس کی پہلی کڑی آصف زرداری کے بیان کی الطاف حسین کے بیان سے جڑی اور آخری کڑی خواجہ آصف اور مشاہد اللہ خان کے انٹرویوز نے مکمل کی ۔میزبان کا کہنا تھا کہ اس پورے ماحول میں ہم آج پوری ذمہ داری سے یہ انکشاف کرسکتے ہیں کہ فوج اور سیاستدانوں کے تعلقات کوپاکستان کے 68ویں یوم آزادی پر تقریباًپوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جایا گیا تھا۔رات گئے وزیر اعظم نواز شریف حرکت میں آئے اور مشاہد اللہ سے استعفیٰ طلب کر کے اس جلتی آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی ۔تنائو میں بے پناہ اضافہ ہورہا تھا،جی ایچ کیو میں وسوسے پیدا ہورہے تھے ۔فوجی قیادت کو نواز شریف کا وہ دوسرا دور یاد آرہا تھااور یہ چہ میگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ نواز شریف نے مئی 1997سے اکتوبر کے دوران فوج کے تین سربراہوں کو گھر بھیجا تھا۔کہیں وہ اپنی اسی کیفیت میں تو نہیں لوٹ رہے مگر اس بار بظاہر ایسا نہیں ہوا اور شاید آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں وزیر اعظم نواز شریف مشاہد اللہ کے بیان سے پیدا ہونے والی حدت کچھ کم کرنے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن یہ بات سیاسی تجزیہ کاروں اور فوجی حلقوں میں بھی دلچسپی سے نوٹ کی گئی کہ وزیر اعظم نے مشاہد اللہ خان سے ان کی ایک گمنام وزارت تو لے لی مگر سینیٹر کی حیثیت سے مستحکم سیاسی پوزیشن کو برقرار رکھا گیا۔آپ اتفاق کریں گے کہ کڑیوں سے کڑیاں ملاتی یہ تمام اندرونی معلومات و تفصیلات اس بات کی کھلی گواہی دے رہی ہیں کہ ایک بار پھر پاکستان میں فوجی اور سیاسی قیادت کے تعلقات کشیدہ ہیں ۔صورتحال کی شدید سنگینی کا احساس وزیر اعظم نواز شریف کو یقیناً ہے جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی پارٹی اور حکومت کے رہنمائوں کو فوجی معاملات کے بارے میں بیانات دینے سے منع کردیا ہے ۔ پچھلے تین ماہ کی صورتحال نے جو حالات پیدا کئے وہ سیاستدانوں اور فوج کے تعلقات کو بند گلی تک نہ لے جائیں مگر اس پورے منظر نامے میں 20کروڑ پاکستانی عوام کے لئے اطمینان اور خوشی کی بات یہ ہونی چاہئے کہ آپریشن ضرب عضب کی عظیم الشان کامیابیوں اور پاکستان کے سیاسی قائدین کی جانب سے فوج کے کردار کے حوالے سے شدید متنازعہ بیانات کے باوجود آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا جمہوریت اور جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت پر غیر متزلزل اعتماد ہر صورت میں برقرار ہے ۔جنرل راحیل اور ان کے کور کمانڈرز اب بھی یہ مانتے ہیں کہ پاکستان کی بھلائی و ترقی جمہوریت کے تسلسل میں پنہاں ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ سیاسی قائدین کو بھی اس حساس صورتحال کا احساس کرنا ہوگااور جمہوریت کے استحکام کے لئے فوجی امیج،فوج اور اس کے کمانڈرز کی حرمت اور عزت کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے اور اس کی ان کو پاسداری کرنی ہوگی۔ یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے ۔ اس وقت پاک فوج کی قیادت جنرل راحیل شریف کے پاس ہے ۔وہ فوج کی عزت و تکریم کے معاملے میں ذرا سی بھول چوک کو شاید برداشت نہ کرپائیں اور جمہوری پاکستان کو خدا نخواستہ نا قابل تلافی نقصان نہ پہنچ جائے ۔
فوجی اور سیاسی قیادت کے تعلقات ایک بار پھر کشیدہ
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
سچا اور کھرا انقلابی لیڈر
-
بے ہوش خاتون کو ہسپتال لے جاتے ہوئے ایمبو لینس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ ...
-
چنکی پانڈے کے بیٹے کی ڈیبیو فلم ’سیارہ‘ کی تاریخی کامیابی کی وجہ کیا بنی؟
-
یکم اگست سے اسکولوں کے نئے اوقات کار جاری
-
تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر کی بیٹے اور ساتھیوں سمیت ( ن) لیگ میں ...
-
معروف ماڈل نے فلم پریمیئر پر پروڈیوسر کی چپل سے دھلائی کردی
-
ایک بڑے سیاسی گھرانے کی شخصیت کے کرپٹو میں 100 ملین ڈالر ڈوبنے کی ...
-
کسٹمز کی کارروائیاں، 7 من سے زائد اسمگلڈ سونا ضبط
-
بابوسر میں 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، سیاحتی وادی میں مکمل خاموشی
-
ہانیہ عامر اور عاشر وجاہت کی متنازع ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دوستی ختم ہوگئی
-
پنجاب میں بارشوں کا ایک اور طاقتور اسپیل تیار، الرٹ جاری
-
سعودی عرب میں خوفناک ٹریفک حادثہ ، ایک ہی خاندان کے 7 پاکستانی عمرہ زائرین ...
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
سچا اور کھرا انقلابی لیڈر
-
بے ہوش خاتون کو ہسپتال لے جاتے ہوئے ایمبو لینس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا
-
چنکی پانڈے کے بیٹے کی ڈیبیو فلم ’سیارہ‘ کی تاریخی کامیابی کی وجہ کیا بنی؟
-
یکم اگست سے اسکولوں کے نئے اوقات کار جاری
-
تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر کی بیٹے اور ساتھیوں سمیت ( ن) لیگ میں شمولیت
-
معروف ماڈل نے فلم پریمیئر پر پروڈیوسر کی چپل سے دھلائی کردی
-
ایک بڑے سیاسی گھرانے کی شخصیت کے کرپٹو میں 100 ملین ڈالر ڈوبنے کی خبریں
-
کسٹمز کی کارروائیاں، 7 من سے زائد اسمگلڈ سونا ضبط
-
بابوسر میں 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، سیاحتی وادی میں مکمل خاموشی
-
ہانیہ عامر اور عاشر وجاہت کی متنازع ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دوستی ختم ہوگئی
-
پنجاب میں بارشوں کا ایک اور طاقتور اسپیل تیار، الرٹ جاری
-
سعودی عرب میں خوفناک ٹریفک حادثہ ، ایک ہی خاندان کے 7 پاکستانی عمرہ زائرین جاں بحق
-
حکومت نے اوورسیزپاکستانیوں کے لیے نئی اسکیم جاری کر دی!بڑی خوشخبری
-
انڈر 19 ون ڈے: جنوبی افریقا کے بیٹر نے نئی تاریخ رقم کردی