آئین میں خصوصی ترمیم کی گئی اور خصوصی عدالت قائم کی گئیں پارلیمنٹ نے دو ایکٹس پاس کئے ۔ 7 جنوری 2015 کو کانسٹی ٹیوشن ایکٹ 2015 ، پاک آرمی ایکٹ 2015قرار دیا گیا جس کو بعد میں 21 ویں ترمیم کا نام دیا گیا اور یہ ایکشن آف پارلیمنٹ بن گئے ۔ بہت زیادہ خصوصی حالات ، پاکستان کے خلاف کارروائیوں ، دہشت گردانہ کارروائی ، مسلم جھتے جو کہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی ان کے جلد ٹرائل کے لئے یہ ترمیم کر کے فوجی عدالتیں بنائیں گئیں ۔ کہا گیا کہ خصوصی حالات خصوصی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں ۔ اس لئے ملکی سلامتی کے لئے یہ اقدامات کئے گئے اور فوجی عدالتیں بنائیں گئیں ۔ وفاقی حکومت کسی بھی ملزم کا جرم جو درج ذیل ترمیم کے تحت آتا ہے اسے فوجی عدالتوں میں بجھوا سکتی ہے ۔ اس طرح سے صوبائی حکومت بھی اپنے مقدمات فوجی عدالتوں میں بجھوا سکتی ہیں ۔ اس ترمیم کے حوالے سے کہا گیا کہ اس ترمیم کا باقی آئین پر کوئی اثر نہیں ہو گا ۔ صرف یہ ہو گا کہ فوجی عدالتوں میں چلائے جانے والے مقدمات کو تحفظ حاصل ہو گا اور کسی عدالت میں اس کو چیلنج نہیں کی جا سکے گا ۔میں اب واضح کروں گا کہ ان دو ایکٹس کا پورے آئین پر کیا اثر پڑا ہے اس بارے آرٹیکلز کا حوالہ دیں گے ۔ آرٹیکل 2 اے براہ راست متاثرہے جس میں عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے آرٹیکل 8 کی کلاز I اور II غیر موثر ہو کر رہ گئی ہیں ۔ آرٹیکل 9 میں شہریوں کی زندگی اور آزادی کی ضمانت دی گئی ہے آرٹیکل 10 میں گرفتاری اور دیگر معاملات میں آرٹیکل 10 اے میں شفاف ٹرائل کی بات کی گئی ہے آرٹیکل 25 میں برابری کی سطح پر آئین و قانون کا سلوک ہے برابر کے حقوق دیئے گئے ہیں ۔ آرٹیکل 175 کی کلاز 3 میں عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا گیا ہے ۔ آرٹیکل 184(3) میں بنیادی حقوق کی بات کی گئی ہے ۔ یہ ترامیم اس سے بھی متصادم ہے آرٹیکل 185 کے تحت عدلیہ کے اپیلٹ فورم کو متاثر کیا گیا ہے ہائی کورٹس کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی ہے ۔ آرٹیکل 199 میں انتظامی اختیارات کی بات کی گئی ہے اس کی نفی کی کوشش کی گئی ہے ۔ 199(3) کے تحت ہائی کورٹس کورٹ آرڈرز اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے احکامات جاری کرتا ہے اس کی بھی خلاف ورزی ہے آرٹیکل 245 ہے جس میں مسلح افواج کے کردار کی وضاحت کی گئی ہے کہ انہیں سول اداروں کی مدد کے لئے ضروری ہے ۔ پارلیمنٹ کے ان اختیارات پر بھی قدغن لگائی گئی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کو بھی جائزہ لینے





















