اے کے ڈوگر نے کہا کہ آئین کے تمام آرٹیکلز مساوی حیثیت رکھتے ہیں جب آئین بنتا ہے تو آئین بنانے کا اختیار جس کو پرائمری اور لامحدود اختیار کا نام دیا گیا آئین بننے کے بعد وہ اختیار ختم ہو گیا عام قانون بنانے اور آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار مختلف چیزیں ہیں اعلیٰ حقوق اور ادنیٰ حقوق کی بھی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اعلیٰ حقوق عدلیہ کی آزادی کے قریب ہے انہوں نے 2005ءکے سپریم کورٹ فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔ آئینی ترمیم کو سیاسی سوال قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس کا اصل بھی پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے ہی دیا جائے گا۔ یہ غلط ہے کہ 3 دہائیو ں سے آئین اس طرح سے چلاتا رہا ہے۔ آئینی پروویژنز اور ترمیمی پروویژنز میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا۔ آئینی پروویژنز کو کوئی نہیں چھیڑ سکتا وہ عوامی خواہشات کے تحت بنے ہیں جن کو ترمیم کے ساتھ متنازعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض آرٹیکلز میں نہ صرف میں خود متاثر ہوں بلکہ اس ملک کے لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں انہوں نے آرٹیکل 17(4) کا تذکرہ کیا سب آرٹیکل 4 کو ختم کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب آرٹیکل 4 اصل آئین کا حصہ تھا اے کے ڈوگر نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت پنی جماعت کے اندر انٹرا پارتی انتخابات کرائے گی اور رہنماﺅں کے درمیان انتخابات کرائے گی جس میں آفس بیررز اور پارتی رہنما بھی شامل ہوں گے۔ یہ بعد میں شامل کیا گیا اور ایل ایف او کا حصہ تھا۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں کے حوالے سے گزارشات کروں گا کہ لوگوں کے ان کے بارے میں خیالات اچھے نہیں ہیں علامہ اقبال بھی ان سے مطمئن نہیں تھے اور جملہ کہا تھا جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاستدان۔ شیطان نے خدا سے کہا کہ میری اب ضرورت نہیں رہی کیونکہ میرے جانشین سیاستدان آ چکے ہیں۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آپ ایک طرف تو سیاستدانوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ انہیں شیطان قرار دے رہے ہیں۔ اس پر اے کے ڈوگر نے کہا کہ یہ جملہ صرف مجھے کاﺅنٹر کرنے کے لئے آپ نے بولا ہے سب آرتیکل ختم کرنا غیر آئینی و غیر قانونی ہے جمہوریت ہمارے ملک کا ایک ستون ہے۔