اے کے ڈوگر نے کہا کہ 1998ءسپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ آئین میں دی گئی تمام پروویژنز ایک مقام رکھتی ہیں ان کا ایک جیسا مقام نہیں ہے آرٹیکل 209 بارے جسٹس اجمل میاں کے معاملہ آیا تھا جو جج صاحب فیڈرل شریعت کورٹ جانے سے انکار کریں گے وہ ہائی کورٹ کے ججز نہیں رہیں گے اس پر سوال اٹھا آرٹیکل 209 کہاں جائے گا آرٹیکل 203 سی اور 209 کا موازنہ کیا گیا تو آرٹیکل 209 کو لے لیا گیا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کے قریب ہے اس لئے 209 آرٹیکل برقرار رہے گا اور آرٹیکل 203 سی ساکت رہے گا۔ 18 ویں ترمیم بارے کہا گیا کہ اس کے ہٹانے کا طریقہ کار صحیح نہیں تھا صحیح طور پر مشاورت نہیں کی گئی اگر ان کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی کچھ معاملات پر بات ہو سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں ایک آرتیکل میں ترمیم نہیں کی گئی تمام تر آئین کا رویو کر دیا گیا جس کا پارلیمنٹ کو استحقاق اور اختیار نہیں تھا یہ قانون ساز اسمبلی کا اختیار تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کرتے ہوئے آئینی اختیار استعمال کیا گیا جس کا ان کو اختیار نہیں تھا آئینی اختیار اور آئین کے تحت اختیار میں فرق ہے۔ یہ بھی اصلاحات ہیں یہ قانون سازی کا اختیار ہے آئینی اختیار نہیں ہے۔