فوجی عدالتوں اور دیگر معاملات بارے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو اے کے ڈوگر نے پچھلے روز کے دلائل کا مختصر خاکہ پیش کیا فیصلہ میں کہا گیا آئین کے بنیادی خدوخال کا معاملہ ایک اکیڈمک سوال قرار دیا گیا‘ ہم اکیڈمک کام نہیں کر رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کے مستقبل کے اختیارات کا جائزہ لے رہے ہیں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا جو فاﺅنڈیشن کے خلاف ہو۔ قانون سازی پاور اور آئینی سازی پاور میں فرق ہے‘ قانون ساز پاور پارلیمنٹ کو قانون بنانے کی اجازت دیتا ہے جبکہ آئین سازی پاور آئین کے تحت کوئی ترمیم کرتا ہے انہوں نے وکلاءمحاذ کیس کا بھی حوالہ دیا۔ یہ طے شدہ ہے۔ آئین کی ترمیم کو آئین ساز پاور قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آئین میں اس طرح سے الفاظ کا استعمال نہیں ہوا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ فضل کریم سابق جج نے کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے بھارتی آئین بارے بات کی ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اب جبکہ دونوں میں فرق کر رہے ہیں ہمارا 3 تین طرح کا آئین ہے ایک بھٹو نے بنایا ایک آئین ساز اسمبلی نے بنایا تو اب یہ پاور کہاں سے فرق کریں گے۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ آپ کے منہ میں گھی شکر اور منہ میں خاک‘ آپ پھر ایک اور مارشل لاءکی بات کر رہے ہیں جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اگر کوئی اور آ گیا اور اس نے ہم کو مار کر نیا کچھ بنا دیا تو کیا ہو گا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ اس ملک میں آئین و قانون بھی اسلامی حیثیت میں برقرار رہے گا۔ اس طرح کی کوشش اب نہیں ہو سکتی جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ 56‘ 62 کے بعد 73 کے آئین کی کیا ضرورت تھی اگر 1973 کا آئین ہی بہتر تھا تو پہلے دونوں آئین کو غلط قرار دینا ہو گا۔ اگر کوئی آ گیا انہوں نے سارا کا سارا تبدیل کر دیا تو پھر دلائل رہ جائیں گے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ یہ سب نئے آنے والے پر ہے کہ وہ کیا کرے گا؟