دہشت گردی کی لعنت ایک غیر اعلانیہ جنگ ہے اس جنگ کے بہت زیادہ اثرات ہیں فرض کریں کہ میں سوچتا ہوں کہ اگر میں تمام سیاسی جماعتوں کے فیصلے کو رد کر دیتا ہوں تو مزید 10 سے 20 ہزار لوگوں کو اور نقصان ہو گا۔ سویلین حکام اتنے مضبوط نہیں ہیں سمجھ لیں کہ سارا قصور حکومتوں کا ہے مگر دہشت گردوں کے حوالے اس ملک کو نہیں کیا جا سکتا یہ آپ کی خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ یہ ملک اپنے وجود کے خطرات سے دو چار ہے۔ علاقائی مسائل بھی ہیں جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالتی نظام کی وجہ سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ عدلیہ اس کا ساتھ دے رہی ہے عدالتوں کی ناکامی کی وجہ سے ہے یہ لاءاینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے جس سے نمٹنا انتظامیہ کا کام ہے تیز ترین ٹرائل کی ضرورت ہے تمام تر دہشت گردی کے مقدمات کے التواءکی وجہ شہادتوں میں تاخیر ہے اور استغاثہ کام نہیں کر رہا ہوں 8 ہزار لوگوں کو ڈیتھ سیل میں کون لایا ہم نہیں لائے ججز پر آپ الزام نہ لگائیں یہ سب ہمارا کام نہیں ہے حکومت اپنی کمزوریاں ہم پر نہ ڈالے۔ خالد انور نے کہا کہ یہ مانتا ہوں انتظامیہ کی ناکامی ہے۔ سول نظام ناکام ہو چکا ہے آپ کی سب باتیں درست ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری انتظامیہ اس سارے معاملے کو ختم نہیں کر سکتی ججز کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا‘ اگر میں انسداد دہشت گردی جج ہوتا تو مجھے بھی دھمکیاں ہوتیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس کے باوجود بھی ہم فیصلے دے رہے ہیں اور ملزمان کو سزائے موت دے رہے ہیں۔ ایک طرف انتظامیہ ہے تو دوسری طرف عوام کے بنیادی آئینی حقوق ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر شہریوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے ہیں تو اس میں شہریوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جسٹس جواد خوانجہ نے کہا کہ یہاں پر ہمیں تاریخ کو نہیں بھولنا چاہئے۔ یہاں آئین کے سب سے زیادہ مخالف ہیں تین چوتھائی اکثریت نہیں مل سکتی۔ خالد انور نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ پر تنقید نہیں کر رہے ہیں کراچی میں آرمی کام کر رہی ہے اس سے میرے حقوق متاثر ہوتے ہیں مگر لوگ وہاں خوش ہیں کہ ان کو تحفظ مل رہا ہے اور اس کی وجہ فوج ہے۔