دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ اس کو روکنے کیلئے موثر قانون سازی کی ضرورت تھی اور دہشت گردون کو سخت ترین سزائیں دینا وقت کا اہم تقاضا تھا یا تو اپنے ملک کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا پھر ان کے خاتمے کے اقدامات کئے جاتے اس لئے 21ویں ترمیم منظور کی گئی۔ اگر کوئی اور ٹربیونل بھی 21 ویں ترمیم کے تحت وجود میں آتا ہے تو بھی اس کے دائرہ کار کو آرٹیکل 199 کے تحت چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی مقدمات کا فیصلہ 7 روز میں کیا جاتا ہے۔ ایلیٹ فورم بھی 7 روز میں اس کا فیصلہ کرے گا۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ ان اپیلوں کے فیصلوں کی مانیٹرنگ کریں گے اور جلد سے جلد نمٹانے کے اقدامات کا خیال رکھیں گے۔ تمام تر گواہوں اور دیگر افسران کا تحفظ کیا جائے گا۔ دہشت گردی عدالتوں اور ہائی کورٹ ججز کو دھمکیاں دی جاتی ہیں ان کی زندگیاں رسک پر ہوتی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شہادتیں نہیں آتیں اور ملزمان رہا ہو جاتے ہیں عام حالات میں دہشت گردوں کو سزا دینا بہت مشکل ہے یہ کڑوی دوائی ضرور ہے مگر ہمیں پینا پڑے گی کیونکہ ہم گواہوں‘ ججز سمیت عملے کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے نہ ہی ججز اپنا فرض ادا کر سکتے ہیں اس لئے فوجی عدالتوں کا قیام ضروری ہے۔ عدلیہ کے متوازی کوئی اور ادارہ نہیں بنایا جا سکتا اس لئے ان عدالتوں کا قیام آرمی ایکٹ کے تحت کیا گیا ہے۔ الیکشن ٹربیونل بھی الگ سے دیئے گئے ہیں جن کو 12ویں ترمیم میں واضح کر دیا گیا ہے۔ یہ ٹربیونلز 3 سال کے لئے بنائے جا سکتے ہیں۔ ٓئینی ترمیم میں بنیادی حقوق کا مکمل تحفظ کیا گیا ہے اور ان کو الگ کر دیا گیا ہے۔