جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے ہاں کے بنیادی حقوق قوانین کے تحت دیئے گئے ہیں جبکہ بھارت میں یہ حقوق حقیقت میں دیئے گئے ہیں۔ خالد انور نے کہا کہ اگر کوئی قانون بدنیتی پر مبنی ہو تو عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ صرف ایک پہلو جس کے تحت سپریم کورٹ کے اختیار کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل کو کہنا پڑا کہ عدالت اس ڈیکلریشن کو کالعدم قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے کیونکہ آئین سازی کی نگرانی کرتی ہے۔ پاکستان میں 5 منٹ میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ڈیکلریشن نہیں بنتا۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ باتیں کیا ہو رہی ہیں اور فیصلہ کیا ہو رہا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 31 (C) مکمل طور پر اڑا دیا کیونکہ اس سے عدلیہ کے اختیارات پر قدغن لگتی تھی۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام بارے 21 ویں ترمیم کے تحت ہم بنیادی آئینی ڈھانچے کا جائزہ لے سکتے ہیں خالد انور نے کہا کہ اس حوالے سے وہ بعد میں بات کریں گے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیسا ولندا بھارتی کیس میں عدالت نے اس طرح کے کسی اور آئینی ترمیم سے روکنے کے لئے فیصلہ جاری کیا تھا۔ 21 ویں ترمیم میں بھی کسی اور ادارے کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس اقدام کو بذات خود آئین نے کوئی تحفظ نہیں دیا ہے۔ آئین کے تحت تحفظ یا آئین کے از خود تحفظ کا جائزہ لینا ہے۔ 21 ویں ترمیم میں قانون کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ 18 ویں ترمیم کا وجود ہی آئین سے ہے۔ خالد انور نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کیسا ولندا کیس میں کہا کہ 31 (c) بنیادی آئینی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے یا نہیں ہم پھر بھی اس کو عدلیہ کی آزادی کے مترادف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیتے ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہم بھارتی آئین کا سہارا کیوں لے رہے ہیں جس کا ہمارے آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ این آر او کے مقدمے میں ہم نے بھی فیصلہ دے دیا اور غیر ضروری طور پر ساڑھے 3 سو صفحے لکھ ڈالے جبکہ حکومت نے تو از خود ہی تسلیم کر لیا تھا کہ یہ این ار آو غلط ہے اور ایسے ایسے قانونی نکات اٹھا دیئے جو غیر متعلقہ تھے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کر دی۔