اخبار کا کہنا ہے کہ مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ایک سراب ہے۔ نیوز رپورٹیں جعلی ہیں۔ پروفیسر اداکار ہیں۔ یونیورسٹیوں کے کیمپس محض کمپیوٹر سرورز پر محفوظ کی گئی تصویریں ہیں۔ ڈگریاں کوئی حقیقی الحاق یا منظوری نہیں رکھتیں۔ اخبار کے مطابق کم از کم 370 ویب سائٹوں پر پھیلی ہوئی اس تعلیمی دنیا میں کوئی بھی چیز اصلی نہیں ہے، سوائے ان کروڑوں ڈالروں کے جو کہ دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں سے ہر سال ہتھیائے جاتے ہیں، اور یہ تمام دولت کراچی شہر میں واقع ایک پراسرار سافٹ ویئر کمپنی کے پاس جاتی ہے۔نیویارک ٹائمز کی مفصل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جعلی کاروبار کی خالق اور مالک کراچی شہر سے کام کرنے والی کمپنی Axact ہی ہے جس نے شہر میں اپنے دفاتر میں دو ہزار سے زائد افراد کو ملازم رکھا ہے اور خود کو پاکستان کی سب سے بڑی سافٹ ویئر برآمد کنندہ کمپنی کہتی ہے، جو ملازمین کو سلیکون ویلی کی طرح مراعات فراہم کرتی ہے جس میں ایک سوئمنگ پول اور تفریحی کشتی بھی شامل ہے۔ اخبار کے مطابق اگرچہ Axact کچھ سافٹ ویئر ایپلی کیشنز بھی بناتی ہے، لیکن اس کے سابقہ ملازمین، کمپنی کے ریکارڈ اور اس کی ویب سائٹوں کا تفصیلی تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا اصل کام جعلی ڈگریاں بیچنا ہے اور یہ اس کام کو عالمی پیمانے پر لے جاچکی ہے۔ ایک سابقہ ملازم کے مطابق Axact کے ہیڈکوارٹرز میں ٹیلی فون سیلز ایجنٹ شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک سے تعلیم کے خواہشمندوں کو جھانسہ دے کر انہیں جعلی دستاویزات فروخت کرتے ہیں۔