میں یہاں آپ کو ایک اور حقیقت بھی بتاتا چلوں‘ عمران خان پر 3نومبر 2022ء کو وزیرآباد میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور یہ اس میں زخمی ہو گئے تھے‘ وہ عمران خان کی زندگی کا مشکل ترین دن تھا لیکن اس دن کارکنوں کی طرف سے کوئی ری ایکشن سامنے نہیں آیا‘ ملک کے چند شہروں کے چند مقامات پر تھوڑے بہت احتجاج ہوئے اور بس جب کہ چھ ماہ بعد 9 مئی 2023ء کو کارکنوں نے دو سو فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملے کر دیے‘ ان مقامات کی بے حرمتی بھی کی گئی اور انہیں آگ بھی لگائی گئی‘ کیا یہ بات حیران کن نہیں لیڈر پر قاتلانہ حملہ ہو اور لیڈر نے اس حملے کی ذمہ د اری آرمی چیف‘ ڈی جی آئی اور ڈی جی سی پر ڈال دی ہو‘ لیڈر نے یہ تک کہہ دیا ہو ’’مجھے قتل کر دیا جائے گا‘‘ مگر کوئی کارکن باہر نکل کر ٹائر تک نہ جلائے لیکن 9 مئی کو لیڈر کی صرف گرفتاری پر کارکن بپھر جائیں اور یہ حساس مقامات کو آگ لگا دیں‘ کیا یہ حیران کن نہیں؟ اگر احتجاج‘ حملے اور آگ لگانے کا کوئی مناسب دن تھا تو وہ 3نومبر کا روز تھا‘
اس دن عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جب کہ 9 مئی کو انہیں صرف گرفتار کیا گیا تھا‘ کارکن اس دن کیوں بپھر گئے؟ کیا کوئی سمجھ دار شخص مجھے یہ باریک نقطہ سمجھا سکتا ہے! میرے خیال میں وجہ سادی بھی تھی اور سیدھی بھی‘29نومبر کو آرمی چیف کی تقرری ابھی باقی تھی اور جنرل فیض حمید کو اپنا دائو لگنے کی امید تھی‘ جنرل فیض حمید نے آرمی چیف بننے کے لیے مریم نواز کے سمدھی چودھری منیر کو بھی نواز شریف کے پاس بھجوایا تھا اور چودھری منیر نے ان کی باقاعدہ سفارش کی تھی اور یہ پیغام بھی دیا تھا ’’میں ماضی کی تمام غلطیوں کا سودسمیت ازالہ کروں گا‘‘ میاں نواز شریف کے ایک قریبی دوست سے بھی سفارش کرائی گئی تھی مگر میاں صاحب اپنا فیصلہ کر چکے تھے‘ میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینا چاہتے تھے لیکن نواز شریف راضی نہیں ہوئے اور یہ ہر صورت جنرل عاصم منیر کو چیف بنانا چاہتے تھے‘ جنرل فیض کو خواجہ آصف سے بھی بہت امید تھی‘ اس کی وجہ دو احسان تھے‘ جنرل فیض نے خواجہ آصف کو 2018ء کے الیکشن میں جتوایا تھا‘
این اے73کی سیٹ عثمان ڈار جیت چکے تھے لیکن خواجہ آصف نے رزلٹ سے قبل جنرل باجوہ سے رابطہ کیا اور باجوہ صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’خواجہ صاحب آپ فکر نہ کریں‘ آپ جیتے ہوئے ہیں‘‘ اس مبارک باد کا بھرم جنرل فیض نے رکھا تھا‘ دوسرا جنرل فیض نے خواجہ آصف کو ’’ڈس کوالی فکیشن‘‘ سے بچایا تھا‘ کیسے بچایا تھا؟ یہ بھی ایک دل چسپ داستان ہے اور میں آئندہ کسی کالم میں یہ پوری تفصیل سے بیان کروں گا‘ جنرل فیض کا خیال تھا خواجہ آصف اب ان احسانات کا بدلہ دیں گے لیکن شایدیہ خواجہ آصف کو جانتے نہیں تھے‘ یہ اگر انہیں آج بھی جاننا چاہتے ہیں تو یہ جنرل باجوہ کے سسر جنرل اعجاز امجد سے پوچھ لیں‘ ان کے پاس ایسی ایسی داستان ہے جسے سن کر کان سرخ ہو جاتے ہیں‘ بہرحال قصہ مختصر عمران خان پر قاتلانہ حملے تک جنرل فیض حمید کو چیف بننے کی توقع تھی لہٰذا انہوں نے کسی قسم کی غلطی نہیں کی مگر جب جنرل عاصم منیر کی تقرری فائنل ہو گئی تو یہ کھل کر سامنے آ گئے اور اس کے بعد عمران خان نے 26 نومبر 2022ء کو ٹانگ پر پلستر کے ساتھ لانگ مارچ بھی کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
جنرل عاصم منیر کی تقرری کے بعد جنرل فیض نے 10 دسمبر 2022ء کو ریٹائرمنٹ لے لی‘ یہ ریٹائر ہو گئے مگر ان کی خواہشوں اور جذبہ انتقام نے ریٹائر ہونے سے انکار کر دیا اور یہ عمران خان کے خفیہ مشیر بن گئے‘ فوج کی روایت ہے آرمی چیف بننے سے قبل فہرست میں شامل تمام امیدوار پورا زور لگاتے ہیں لیکن جب کوئی ایک کام یاب ہو جاتا ہے تو پھر دوسرے اس فیصلے کو قبول کر لیتے ہیں‘ اسے مبارک باد دیتے ہیں اور ریٹائرمنٹ لے کر چپ چاپ گھر چلے جاتے ہیں‘ نیا چیف بھی پرانی کدورتیں بھلا کر آگے بڑھ جاتا ہے‘ اس بار بھی یہی ہوا‘ جنرل عاصم منیر نے جنرل فیض حمید کے ماضی کو کھلے دل کے ساتھ بھلا دیا لیکن جنرل فیض نہیں بھولے‘ یہ جذبہ انتقام میں اندھے ہو گئے اور انہوں نے وہ کر دیا جس کا نتیجہ 9 مئی کی شکل میں نکلا‘ 9 مئی کو پی ٹی آئی کے عام سے کارکنوں نے فوج کے ان مقامات پر بھی حملے کیے جن کے بارے میں فوج کے اپنے لوگ بھی نہیں جانتے تھے‘ لاہور کے کور کمانڈر کے گھر کی لوکیشن کتنے لاہوریوں کو پتا ہو گی؟ سی ایس ڈی‘ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر‘ چک درہ کے ایف سی فورٹ‘ آرمی ملٹری ہسٹری انسٹی ٹیوٹ‘ اے ایف آئی سی‘ گوجرانوالہ کینٹ کے راہوالی گیٹ‘ مردان کے پنجاب رجمنٹل سینٹر اور جی ایچ کیو کے گیٹس کے بارے میں عام کارکنوں کو کیسے علم ہوا؟ یہ ساری لوکیشنز اور ان کی حساسیت سے صرف اندر کے لوگ واقف تھے اور جنرل فیض سے زیادہ اندر کا بندہ کون ہو سکتا تھا لہٰذا جنرل فیض نے اس فساد میں عمران خان کی سہولت کاری کی‘ انہیں اس سے قبل ایک آدھ بار سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی تھی‘
انہیں ایسے مقامات پر بھی بلایاگیا جہاں یہ اپنے دور اقتدار میں دوسروں کو بلایا کرتے تھے‘ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد سہولت کاری کرنے والے آفیسرز کے انجام کے بارے میں بھی بتایا گیا لیکن یہ باز نہ آئے اور یوں 9 مئی ہو گیا‘ ہمیں یہاں یہ ماننا ہو گا نو مئی پاکستان کا نائین الیون تھا اور اس نے پاکستان کے اندر بھی اسی طرح ہر چیز بدل کر رکھ دی جس طرح نائین الیون نے پورے امریکا کو بدل دیا‘ افواج پاکستان کو 9مئی میں اپنے لوگوں کی انوالومنٹ کا اندازہ تھا چناں چہ انتہائی سینئر لیول کے آفیسرز تک کو فارغ کر دیا گیا‘ ان آفیسرز میں کور کمانڈر لاہور بھی شامل تھے جب کہ درجنوں بریگیڈیئرز‘ کرنل اور میجرز بھی اس فہرست میں موجود ہیں‘ بہرحال قصہ مزید مختصر 9 مئی کو سال گزر گیا‘ اس دوران عدالتوں نے بھی انتشار پھیلانے والوں کا کیس کسی سمت نہیں لگنے دیا اور فوج بھی پیچھے نہیں ہٹی‘ عمران خان کو عدالتوں نے بار بار ضمانت دی‘ ان کی سزائیں بھی معاف ہوئیں اور یہ سائفر‘ توشہ خانہ اور عدت میں نکاح جیسے سنگین مقدموں سے بھی رہا ہو گئے لیکن اس کے باوجود یہ جیل سے باہر نہ آ سکے‘ ایسا محسوس ہوتا تھا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان عمران خان پر باقاعدہ جنگ چل رہی ہے‘ عدالتیں انہیں شام سے پہلے گھر دیکھنا چاہتی ہیں جب کہ ریاست آخری گولی اور آخری جوان تک انہیں جیل میں رکھنا چاہتی ہے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر 22جولائی 2024کو پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹریٹ پر چھاپا پڑا‘ رئوف حسن گرفتار ہو گئے‘
یہ 75 سال کے علیل بزرگ ہیں مگر اس کے باوجود یہ مائیک اور کیمرے کے ہیضے میں مبتلا ہیں‘ ریاست ان کی بیماری اور بڑھاپے کا احساس کر رہی تھی لیکن یہ انسانوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو جب تک آخری گھر نہ دیکھ لیں یا غلاظت تک نہ پہنچ جائیں انہیں آرام نہیں آتا‘ رئوف حسن نے بھی یہی کیا‘ انہوں نے ریاست کو مجبور کر دیا اور ریاست نے انہیں گرفتار کر لیا ‘ اس کے بعد رئوف حسن نے چند گھنٹے نہ لگائے اور یوں تمام راز کھل گئے‘ چھاپے کے دوران کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ قابو میں آ گئے‘ رئوف حسن کے موبائل بھی مل گئے اور اس کے بعد جنرل فیض‘ ان کے تین ساتھی بریگیڈئیر (ر) غفار‘ بریگیڈئیر (ر) نعیم اور کرنل( ر) عاصم بھی سامنے آ گئے اور عمران خان کا جیل کا نیٹ ورک بھی‘ جنرل فیض کو حراست میں لے لیا گیا‘ ان سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں مزید لوگ سامنے آئے‘ یہ بھی گرفتار ہوئے اور معاملات کھلتے چلے گئے‘ آخری اطلاعات کے مطابق جنرل فیض کے کورٹ مارشل کی تیاری ہو رہی ہے جس کے بعد یہ پاکستانی تاریخ کے پہلے سابق ڈی جی آئی ایس آئی ہوں گے جن کا کورٹ مارشل ہوگا‘ مجھے محسوس ہوتا ہے انہیں فوج میں بغاوت پھیلانے‘ اختیارات کے ناجائز استعمال اور ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے جرائم میں سزا ہو جائے گی۔
اب یہاں پر چند سوال پیدا ہوتے ہیں‘ ایک‘ اگر فوج نے 9 مئی کے جرم میں اپنے سابق ڈی جی آئی کو سزا دے دی‘ اس نے اسے نہیں چھوڑا تو کیا یہ عمران خان اور اس کی پارٹی کے باقی ذمہ داروں کو معاف کر دے گی؟ دوسرا ‘اگر فوج کو اپنی سیاسی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے اور یہ انہیں ٹھیک کرنا چاہتی ہے تو کیا سیاست دانوں اور عوام کو بھی اپنی غلطیوں کو نہیں سدھارنا چاہیے اور تیسرا‘ کیا ریاست کو عمران خان کے دبائو میں آ کر انہیں پورا ملک برباد کرنے کا موقع دے دیناچاہیے؟ یہ لوگ اس قدر خطرناک ہیں کہ ان کے ہاتھ سے کسی عام شہری کی عزت محفوظ ہے اور نہ شہداء کی یاد گاریں‘ کیا ایسے لوگوں کو ایک اور 9 مئی کا چانس دے دینا چاہیے؟ میرا خیال ہے یہ نہیں ہو سکے گا اگر جنرل فیض حمید کو اپنی غلطیوں کا تاوان ادا کرنا پڑ رہا ہے تو پھر بچت عمران خان کی بھی نہیں ہو گی اور اگر کسی نے انجام کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو اسے بھی تیاری کر لینی چاہیے‘ میرا نہیں خیال اب کوئی ذمہ دار احتساب کی چکی سے بچ سکے گا اور اگر یہ لوگ بچ گئے تو پھر میرے منہ میں خاک اللہ معاف کرے یہ ملک نہیں بچ سکے گا۔