جمعرات‬‮ ، 21 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اصفہان میں ایک دن

datetime 2  اپریل‬‮  2024
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘ یہ شہر سلجوقیوں اورصفویوں کا دارالحکومت رہا چناں چہ ہر بادشاہ نے جاتے جاتے اس شہر میں اپنے نقش چھوڑے‘ کسی نے پل بنائے‘ کسی نے مسجدیں‘ کسی نے مدرسے اور کسی نے باغات چناں چہ یہ شہر قدیم سلطنتوں کا میوزیم بن گیا‘ یہ سنٹرل ایشیا کا پہلا شہر تھا جس کی آبادی دس لاکھ تک پہنچی‘

اصفہانی دعویٰ کرتے ہیں آج سے پانچ سو سال پہلے تک پورے یورپ میں اس پائے کا ایک بھی شہر نہیں تھا چناں چہ یہ نصف جہاں تھا یعنی آپ نے اگر اصفہان دیکھ لیا تو آپ نے آدھی دنیا دیکھ لی‘ یہ آج ایران کا اکنامک اور انڈسٹریل ہب بھی ہے‘ لوہے اور قالین سازی کی زیادہ تر انڈسٹریز اصفہان میں ہیں‘ شہر قدامت اور جدت دونوں کا اعلیٰ نمونہ ہے‘ لوگ لبرل‘ خوب صورت اور مہمان نواز ہیں‘ ریستوران اور کافی شاپس آباد ہیں‘ مجھے شہر میں نوجوان لڑکیاں ننگے سر اور جینز میں دکھائی دیں اور یہ سگریٹ بھی پی رہی تھیں‘ رمضان سٹارٹ ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود کیفے اور ریستوران کھلے تھے اور ان میں لوگ کھا پی بھی رہے تھے‘ اصفہانی اجنبیوں سے میل ملاپ سے خوش ہوتے ہیں اور شام کے وقت آدھا اصفہان گلیوں‘ پارکوں‘ مارکیٹوں اور سڑکوں پر نکل آتا ہے۔

ہم اصفہان میں سب سے پہلے کاخ چہل ستون گئے‘ یہ محل صفویوں کے دور میں بنا اور ہمارے شالا مار جیسا تھا‘ درمیان میں پانی کا وسیع تالاب اور اس میں فوارے اور پھر آخر میں اونچی چوکی پر محل کی عمارت‘ یہ چالیس ستونوں پر کھڑا ہے اس لیے اسے چہل (چالیس) ستون کہا جاتا ہے لیکن میں نے ستون گنے تو وہ 20 نکلے‘ باقی 20 کہاں ہیں؟ پتا چلا اصل ستون 20 ہی ہیں لیکن شام کے وقت جب ان ستونوں کا عکس تالاب میں پڑتا ہے تویہ 40 ہو جاتے ہیں لہٰذا اس مناسبت سے اسے چہل ستون کہا جاتا ہے‘ اس دو نمبری پر میری ہنسی نکل گئی‘ مجھے اس قسم کا ایک محل ازبکستان کے شہر بخارا میں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا‘ اس کے ستون بھی تالاب کے عکس سے پورے کیے جاتے تھے‘ محل کے دربار ہال میں صفوی اور افشار دور کی پینٹنگز لگی تھیں‘ ایک پینٹنگ میں مغل بادشاہ ہمایوں شاہ عباس سے مدد مانگنے کے لیے اس کے دربار میں بیٹھا تھا اور کنیزیں ناچ کر اس کا موڈ ٹھیک کر رہی تھیں‘

دوسری پینٹنگ کرنال میں نادر شاہ افشار اور محمد شاہ رنگیلا کی جنگ کی عکاسی کر رہی تھی‘ نادر شاہ سفید گھوڑے پر ہاتھ میں کلہاڑا لے کر لڑ رہا تھا جب کہ محمد شاہ رنگیلا ہاتھی پر بیٹھا تھا‘ تیسری پینٹنگ ایرانی بادشاہ اسماعیل اور ترکی کے سلطان شاہ سلیمان کی جنگ کی عکاس تھی‘ یہ جنگ ایرانی جیت گئے تھے‘ ان کے علاوہ بھی وہاں اس دور کے مختلف اہم واقعات کی پینٹنگز تھیں مگر زیادہ اہم یہ چار تھیں‘ محل سائز میں بڑا تھا لیکن تعمیرات کے لحاظ سے اسے شان دار قرار نہیں دیا جا سکتا تھا‘ اصفہان دنیا کے بڑے مذاہب کا مقام اتصال بھی رہا ہے لہٰذا یہاں یہودیوں کے پرانے سیناگوگ‘ عیسائیوں کے کلیسائ‘ زرتشیوں کے آتش کدہ اور مسلمانوں کی خوب صورت ترین مساجد موجود ہیں‘ ہمیں قدیم چرچ دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ ایسٹرن آرتھوڈاکس چرچ تھا‘ آرمینیا کے عیسائیوں نے بنایا تھا اور وہ واقعی بہت خوب صورت تھا‘

اس علاقے کو جلفا کہا جاتا ہے اور اس میں آج بھی عیسائی آباد ہیں‘ چرچ کے ساتھ واکنگ سٹریٹ ہے‘ ہمیں وہاں ایک ریستوران میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں بریانی ایجاد ہوئی تھی‘ ہمیں معلوم ہوا بریانی اصفہان کی ایجادہے تاہم اصفہانی بریانی ہماری بریانی سے مختلف ہے‘ ہم اسے چاول کے ساتھ بناتے ہیں جب کہ اصفہانی لوگ تازہ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے انہیں پیالے میں ڈالتے ہیں اور اس پر شوربہ اور دہی ڈال دیتے ہیں اور بعدازاں اسے چمچ کے ساتھ کھایا جاتا ہے جب کہ دوسرے مرحلے میں روٹی میں قیمہ لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے‘

ہم نے بریانی خوب انجوائے کی‘ اصفہان کی دوسری بڑی اٹریکشن میدان امام (میدان سلطان) ہے‘ یہ بہت بڑا پختہ چکور میدان ہے جس کی چاروں سائیڈز پر کورڈ بازار‘ دکانیں‘ مسجدیں اور درمیان میں محل علی قاپو ہے‘ یہ میدان روم کے کلوزیم کی طرح ماضی میں بہت اہم ہوتا تھا‘ بادشاہ جھروکے میں بیٹھ جاتا تھا اور میدان میں پولو اور کشتیوں کے مقابلے ہوتے تھے‘ یہ دربار عام بھی تھا اور عوامی اجتماع کا سب سے بڑا مرکز بھی‘ ہمیں پورا چکر لگانے کے لیے الیکٹرک کار پر سوار ہونا پڑ گیا‘ اصفہان اپنے ہینڈی کرافٹس اور قالینوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ ہم نے میدان کے دائیں بائیں بازار میں ہینڈی کرافٹ کی ہزاروں دکانیں دیکھیں‘ ایک دکان پر سونے‘ چاندی اور ہیروں سے بنے ٹی سیٹ رکھے تھے‘ ایک سیٹ کی قیمت دو لاکھ ڈالر تھی‘ آپ اس سے بازار کی نوعیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

میدان امام کی سائیڈز پر سینکڑوں سال پرانی مسجدیں ہیں اور یہ واقعی دیکھنے لائق ہیں‘ مسجد شاہ اٹھارہ سال میں مکمل ہوئی اور یہ آرٹ کا اعلیٰ نمونہ تھی‘ یہ مسجد شاہ عباس نے بنوائی تھی‘ مسجد کی تعمیر کے دوران آرٹسٹوں کی ایک پوری نسل بوڑھی ہو کر فوت ہو گئی تھی‘ مسجد کے صحن میں پتھر کا ایک بہت بڑا پیالہ تھا‘اسے اس زمانے میں شربت سے بھر دیا جاتا تھا اور نمازی عبادت کے ساتھ ساتھ شربت سے لطف اندوز ہوتے تھے‘ مسجد لطف اللہ اس سے بھی بڑا آرٹ کا نمونہ تھی‘ یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی‘ پوری مسجد گنبد کے نیچے تھی اور اس پر کوئی مینار نہیں تھا‘ یہ بھی اٹھارہ سال میں مکمل ہوئی‘ اس میں شاہی خاندان کی خواتین نماز ادا کرتی تھیں اور ان کے لیے محل سے مسجد تک باقاعدہ ٹنل تھی‘ اس کی دیواروں اور چھت پر باریک پچی کاری تھی‘

دیواروں کی ایک ایک انچ آنکھوں کو کھینچ لیتی تھی‘ پورے ایران میں کورڈ بازار ہیں لیکن اصفہان کا کورڈ بازار ان سب کا والد ہے‘ یہ بہت وسیع و عریض ہے‘ آپ اس کے اندر چلتے جائیں چلتے جائیں مگر یہ ختم نہیں ہوتا‘ ایران میں دکانوں پر خواتین بھی کام کرتی ہیں‘ اصفہان اس معاملے میں چند قدم مزید آگے ہے یہاں خواتین دکانیں بھی چلا رہی تھیں‘ پورے بازار میں خواتین خریداری کر رہی تھیں‘ یہ چیز ثابت کرتی ہے خواتین یہاں سیف بھی ہیں اور تگڑی بھی‘ اصفہان باغوں کا شہر بھی ہے‘

ہر گھر میں باغ ضرور ہوتا ہے خواہ یہ تین فٹ ہی کا کیوں نہ ہو‘ ہمارا ہوٹل مرکز میں تھا‘ اس میں بھی وسیع باغ تھا اور زیادہ تر کمرے اسی کی طرف کھلتے تھے‘ باغ میں تالاب اور پل بھی تھے اور بلندوبالا درخت بھی اور ان پر پرندے بھی تھے‘ شہر میں دن کے وقت گرمی ہوتی ہے جب کہ شام کے بعد موسم بہت اچھا ہو جاتا ہے شاید اسی لیے لوگ گھروں سے نکل آتے ہیں‘ خواتین خوب صورت اور بااعتماد ہیں‘ ہر خاتون کا چہرہ گل نار اور جلد زعفرانی تھی‘ ایران کی لوکل مٹھائیاں گز کہلاتی ہیں‘ اصفہان کی گز پوری دنیا میں مشہور ہے‘ میں نے لوگوں کو قطار میں کھڑے ہو کر گز خریدتے دیکھا‘ لوگ کافی بھی پسند کرتے ہیں لہٰذا پورے شہر میں سینکڑوں کافی شاپس ہیں اور وہاں سے ہر قسم کی کافی مل جاتی ہے‘ لوگ مذہبی پابندیوں کو پسند نہیں کرتے شاید اسی لیے وہاں چار پانچ مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور کبھی مذہبی فساد نہیں ہوا۔

ہم دوسرے دن اصفہان کا مشہور پل دیکھنے گئے‘ یہ پل 33 ستونوں پر کھڑا ہے لہٰذا یہ 33 کہلاتا ہے‘ یہ عباس اول نے 1602ء میں بنایا تھا اور اس میں سرخ اینٹیں استعمال ہوئی تھیں‘ یہ اس زمانے میں تعمیراتی شاہ کار تھااور پوری دنیا سے لوگ اسے دیکھنے آتے تھے‘ اب آبی بندوبست کی وجہ سے پلوں کے نیچے دریا سو کھ چکا ہے اور لوگ وہاں کرکٹ کھیلتے ہیں لیکن ہمیں بتایا گیا دریامیں سال میں تین چار مرتبہ پانی آتا ہے اور اسے دیکھنے اور اس میں نہانے کے لیے پورا شہر جمع ہوجاتا ہے‘ کنارے پر کشتیاں کھڑی تھیں جو اس دعوے کی سچائی کا ثبوت تھیں‘

پل واقعی خوب صورت تھا‘ اس کے اوپر جھروکے تھے اور ان جھروکوں سے شہر کی دونوں سائیڈز دکھائی دیتی تھیں‘ شام کے وقت اصفہان کے آرٹسٹ یہاں جمع ہو جاتے ہیں اور گا بجا کر روزی کماتے ہیں جب کہ مصور سیاحوں کی تصویریں بناتے ہیں‘ ہم صبح کے وقت وہاں گئے تھے چناں چہ پل پر چند سیاحوں کے سوا کوئی نہیں تھا‘ ہم نے سیناگوگ اور آتش کدے دیکھنے تھے لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے یہ دونوں نہیں دیکھ سکے‘ہمارا اصفہان میں قیام صرف ایک دن تھا لیکن یہ شہر اس کے باوجود دل میں گھس گیا‘ اس کا کھلا پن‘ لوگوں کی جذباتی گرمائش‘ کھانے‘ چائے اور اولڈ سٹی کی گلیاں اور بازار ہر چیز میں ایک کشش تھی اور اس نے ہمارا دل کھینچ لیاتھا۔

ہماری آخری منزل سعدی شیرازی اور حافظ شیرازی کا شیراز تھا‘ اصفہان سے شیراز پانچ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ راستہ ویران اور بے آب و گیاہ ہے لیکن اس کے آخر میں وہ شیراز آ جاتا ہے جس کے بارے میں حافظ نے کہا تھا ’’اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا۔۔۔بخال‘ بندوش نجشم سمر قندوبخارا‘‘ یعنی میں اپنے شیرازی دوست کے گال کے سیاہ تل پر سمر قند اور بخارا دونوں شہر خیرات کر دوں‘ اس شعر نے امیر تیمور کو شیراز آنے اور حافظ شیرازی کو طلب کرنے پر مجبور کر دیا ‘ حافظ کو دیکھ کر امیر تیمور نے کہا تھا ’’اوبدبخت انسان میں نے سمرقند اور بخارا کو دنیا کے عظیم شہر بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیے اور تم انہیں اپنے معشوق کی گال کے تل پر تقسیم کرتے پھر رہے ہو‘‘ یہ سن کر لرزتے کانپتے شاعر نے دربار میں اپنا گائون اتار دیا‘

نیچے اس نے پھٹا ہوا کرتا پہن رکھا تھا‘ اس نے کرتے کے پیوند دکھا کر عرض کیا ’’حضور اس فیاضی کی وجہ سے تو ہمارا یہ حال ہو گیا ہے‘‘ تیمور یہ سن کر ہنس پڑا اور اس کے بعد اس کی فیاضی کی بدولت حافظ شیرازی نے باقی زندگی بڑی زبردست گزاری‘ اس کا نام محمد اور لقب شمس الدین تھا‘ وہ بچپن میں یتیم ہو گیا اور ایک نان بائی کی دکان پر آٹا گوندھنے کی نوکری کرنے لگا‘ خوش قسمتی سے تنور کے ساتھ ایک مدرسہ تھا‘ وہ کام سے فراغت کے بعد مدرسے چلا جاتا تھا‘ اس نے وہاں سے قرآن مجید حفظ کر لیا‘

اسے نان بائی سے جو معاوضہ ملتا تھا وہ اس میں سے ایک حصہ والدہ اور دوسرا استاد کو دے دیتا تھاجب کہ تیسرا خیرات کر دیتا تھا‘ اس محلے میں کپڑوں کا ایک سوداگر تھا‘ وہ شاعر تھا‘ حافظ نے اس سے شاعری سیکھ لی اور تک بندی شروع کر دی‘ اس کے شعر بہت واہیات اور بے وزن ہوتے تھے لیکن لوگوں نے بطور مزاح اسے سننا شروع کر دیا‘ لوگ اس کا ٹھٹھا اڑاتے تھے جس سے اسے بہت تکلیف ہوتی تھی لیکن پھر ایک واقعہ پیش آیا اور اس نے محمد شمس الدین کو حافظ شیرازی بنا دیا اور واقعہ یہ تھا ۔۔۔۔(جاری ہے)

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…