مجھے پچھلے تین دن گوادر اور اورماڑہ میں گزارنے کا اتفاق ہوا‘ میرے ساتھ 35 خواتین‘ مرد اور بزرگ تھے‘ ہمیں (IBEX) بار بار کہا جا رہا تھا آپ پوری دنیا میں گروپ لے کر جاتے ہیں‘ پاکستان بھی خوب صورت اور قابل دید ہے‘ آپ اپنے گروپ ملک کے مختلف حصوں میںکیوں نہیں لے کر جاتے؟مشورے میں وزن تھا لہٰذا ہم نے پچھلے سال لوکل ٹورازم کا آغاز بھی کر دیا‘ اس ایڈونچر کی تین بڑی وجوہات تھیں‘ ایک‘ ہم بیرونی دنیا سے پاکستان گروپ لانا چاہتے ہیں لہٰذا سسٹم بھی چیک کر رہے ہیں اور سہولتیں بھی‘ دو‘ ہماری آبادی کے 95 فیصد لوگوں نے اپنا ملک نہیں دیکھا‘
لوگ آج تک کراچی‘ کوئٹہ‘ حیدرآباد‘ اسلام آباد‘ لاہور اور پشاور نہیں گئے‘ہم ان لوگوں کو ملک دکھانا چاہتے ہیں‘ ہمارے لوگ جب تک اپنا ملک نہیں دیکھیں گے یہ اس وقت تک ملک‘ اس کی معاشرت اور مسائل کو انڈرسٹینڈ نہیں کر سکیں گے اور تیسری اور بڑی وجہ ہماری خواتین‘ نوجوان بچیوں اور بزرگوں کے پاس ملک کے اندر گھومنے پھرنے کی سہولت نہیں ہے‘ ملک دیکھنا‘ سیروسیاحت اور مختلف کلچر کو سٹڈی کرنا ان کا بھی حق ہے چناں چہ ہم نے پچھلے سال یہ سلسلہ شروع کر دیا‘ ہم چترال بھی گئے‘ کیلاش بھی‘ ہنزہ بھی‘ سکردو بھی اور اس سال ہم نے گوادر بھی سٹارٹ کر دیا‘ ہماراسفر اسلام آباد سے شروع ہوا‘ بائی ائیر کراچی آئے‘ ایک رات کراچی میں بسر کی‘کراچی میں ہمارا پہلا تجربہ ہوٹل تھا اور یہ زیادہ اچھا نہیں رہا‘ کراچی جیسے شہر میں فائیو سٹارز ہوٹل ہیں اور اس کے بعد طویل گیپ ہے‘آپ کوفور سے ون سٹار تک اچھے ہوٹل نہیں ملتے کیوں کہ فائیو سٹار ہوٹلز میں دو ایشوز ہوتے ہیں‘
ایک‘ یہ اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ ٹورازم کمپنیاں افورڈ نہیں کر سکتیں‘ دنیا جہاں میں ٹورازم کمپنیوں کو ٹیکس فری اور رعایتی نرخ میں کمرے ملتے ہیں‘ ہم نیوائیر پر باکو گئے تھے‘ ہمیں وہاں جا کر معلوم ہوا حکومت نے سیاحتی کمپنیوں کو خصوصی رعایت دے رکھی ہے‘ یہ لوکل کمپنیوں کو بعض اوقات کمرے فری کر دیتی ہے اور کمپنیاں دنیا جہاں کے سیاحوں کو انتہائی مناسب رقم میں ہوٹل‘ ٹرانسپورٹ اور دوسری سیاحتی سہولتیں آفر کر دیتی ہیں جس کے نتیجے میں آذربائیجان کی ٹورازم اکانومی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کہ پاکستان میں یہ گنگا الٹی بہتی ہے یہاں سیاحتی کمپنیوں پر زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے اور دوسراایشو فائیو سٹار ہوٹلز میں پورے گروپ کے لیے کمرے دستیاب نہیں ہوتے‘ ٹورازم کمپنیوں کے لیے آدھا گروپ ایک ہوٹل اور آدھا دوسرے ہوٹل میں ٹھہرانا ممکن نہیں ہوتا۔
فائیوسٹار ہوٹلز کے بعد ہوٹلز معیاری نہیں ہیں‘ ان کے کمروں اور بستروں سے بو آتی ہے اور واش رومز کی ٹونٹیاں اور شاور لیک کرتے ہیں‘ اس کی ذمہ دار بھی حکومت ہے‘ حکومت نے آج تک ہوٹلز کے لیے ایس او پیز ہی نہیں بنائے‘ حکومت لائسنس دینے کے بعد کبھی ہوٹلز کا معائنہ نہیں کرتی چناں چہ وہاں گاہکوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ کوئی یہ نہیں جانتا‘ ہم بھی جس ہوٹل میں رکے اس کی حالت بہت خراب تھی‘ کمروں اور واش رومز میں بھی ایشوز تھے اور اس کی لابی بھی نہیں تھی‘ ڈائننگ ہال اور کھانا بھی ٹھیک نہیں تھا جب کہ اس کے باوجود ہوٹل انتظامیہ کا دعویٰ تھا ہم فور سٹار ہیں‘ ہم بھی اگر اسے صرف ویب سائیٹ پر دیکھتے تو یہ واقعی فور سٹار تھا مگر رہائش کے لحاظ سے یہ مائنس فور تھا‘ ہمارا یہ تجربہ ٹھیک ثابت نہیں ہوا۔
ہم دوسرے دن بائی روڈ گوادر کے لیے روانہ ہوئے‘ کوسٹل ہائی وے کی بہت تعریف سنی تھی‘ یہ سڑک جنرل پرویز مشرف نے 2004ء میں بنائی تھی اور اس وقت حکومت نے دعویٰ کیا تھا یہ دنیا کی خوب صورت ترین کوسٹل ڈرائیو ہے‘ آپ کو ایک سائیڈ پر خوب صورت خشک پہاڑ دکھائی دیتے ہیں اور دوسری طرف تاحد نظر نیلا سمندر‘ ہم بھی یہ خوب صورت نظارے دیکھنا چاہتے تھے لہٰذا ہم کوسٹل ہائی وے پر چڑھ گئے‘ ہم لوگ دو کوسٹرز میں تھے‘ مجھے یہ ماننا پڑے گا سڑک اچھی ہے لیکن اس میں تین خوف ناک نقص ہیں‘
پہلا نقص دنیا بھر میں کوسٹل ہائی ویز سمندر کے ساتھ ساتھ بنائی جاتی ہیں لیکن یہ کوسٹل ہائی وے سمندر سے دور پہاڑوں کے درمیان ہے چناں چہ 90 فیصد ڈرائیو کے دوران سمندر دکھائی نہیں دیتا‘ مسافروں کے دائیں بائیں دونوں سائیڈز پر ویران‘ خشک اور چٹیل پہاڑ ہوتے ہیں‘ یہ پہاڑ‘ ویرانہ اور صحرا شروع میں نظروں کو بھلا لگتا ہے لیکن پھر یہ تھوڑی دیر بعد بور کرنا شروع کر دیتا ہے اور مسافر اونگھنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر ایک دوسرے سے گپ شپ‘ حکومت اگر یہ سڑک بناتے وقت سیاحوں کو بھی ذہن میں رکھ لیتی اور اسے سمندر کے ساتھ ساتھ بنا لیتی تو یہ زیادہ خوب صورت ہو سکتی تھی لیکن ظاہر ہے اس کے لیے پلاننگ اور عقل درکار ہے اور ہم من حیث القوم اس سے محروم ہیں‘
دوسرا نقص یہ ساڑھے چھ سو کلومیٹر لمبی ہائی وے ہے لیکن اس پوری ہائی وے پر کسی جگہ واش روم‘ ریسٹ ایریا اور ٹائر شاپ نہیں ہے‘ لوکل لوگوں نے ایک دو مقامات پر چائے خانے بنا رکھے ہیں لیکن وہ اس قدر گندے اور بنیادی صفائی سے محروم ہیں کہ وہاں رکنا اور چائے پینا محال ہے‘ واش روم کے لیے مرد چٹانوں اور ٹیلوں کی اوٹ لے سکتے ہیں مگر خواتین کیا کریں؟ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ ہماری خواتین سارا دن اس تکلیف کا شکار رہیں‘ کاش حکومت اس پر توجہ دے‘ آخر مسافر بھی تو انسان ہوتے ہیں اور انہیں بھی وہ تمام سہولتیں چاہیے ہوتی ہیں جو پلاننگ کرنے والے ’’بڑے دماغوں‘‘ کو اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور کے دفتروں میں درکار ہوتی ہیں‘ ہم نے اگر ساڑھے چھ سوکلو میٹر لمبی سڑک بنا دی تھی تو ہم یہاں ریسٹ ایریاز بھی بنا سکتے تھے جن میں واش رومز بھی ہوتے‘ ریستوران اور چائے خانے بھی اور چھوٹے ہوٹلز بھی‘ آخر اس میںکیا حرج تھا؟ شاید اس سے مسافروں کو سکھ کا سانس آ جاتا اور ظاہر ہے ہماری ریاست کویہ وارہ نہیں کھاتا‘ عوام جب تک تکلیف میں نہیں رہتے ہماری ریاست اور اس کے اداروں کو اس وقت تک خوشی نصیب نہیں ہوتی اور کوسٹل ہائی وے ریاست کے اس اطمینان اور خوشی کا شاہکار ہے‘
تیسرا نقص کوسٹل ہائی وے کے سفر کے دوران دل گھبراتا رہتا ہے‘ تاحد نظر ویرانی ہی ویرانی ہے‘ آدھ آدھ گھنٹہ گزر جاتا ہے اور پھر کہیں جا کر دوسری گاڑی نظر آتی ہے‘ ماضی میں اس سڑک پر حادثے بھی ہوئے اور ان حادثوں میں زخمی اور لاشیں سارا دن ریسکیو کا انتظار کرتی رہیں‘ بی ایل اے کے لوگ بھی گاڑیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں جن میں درجنوں لوگ مارے جاتے ہیں‘ یہ خبریں مسافروں کے ذہنوں میں بیٹھی رہتی ہیں‘ حکومت اگر چاہے تو یہ بی ایل اے کے ساتھ مذاکرات کر کے کم از کم سڑکیں ضرور محفوظ بنا سکتی ہے‘
دنیا میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں‘مثلاً اٹلی کا سسلی مافیا پوری دنیا میں بدنام ہے لیکن حکومت اور مافیا کے درمیان یہ طے ہے یہ سیاحوں کو تنگ نہیں کریں گے چناں چہ آپ سسلی چلے جائیں آپ اگر سیاح ہیں تو کوئی آپ کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھے گا‘ جاپان کا مافیا یاکوزا بھی سیاحت کی سرگرمیوں کو ڈسٹرب نہیں کرتا‘ یمن‘ عراق‘ ایران‘ افغانستان‘ افریقہ اور لاطینی امریکا میں بھی اس نوعیت کے بندوبست موجود ہیں‘ ہم یہ کیوں نہیں کرتے؟ علیحدگی پسند ریاست اور ریاست علیحدگی پسندوں سے لڑتی رہے لیکن سڑکیں اور مسافر محفوظ رہنے چاہییں تاکہ ملک چلتا رہے‘ اگر بلوچستان میں لوگ نہیں آئیں گے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان بلوچوں کو ہو گا‘ ہم اگر انہیں یہ نقطہ سمجھالیں تو یہ بڑی آسانی سے سمجھ جائیں گے‘ معیشت دنیا کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے‘اس دلیل کو سمجھنے کے لیے آئن سٹائن کا دماغ نہیں چاہیے بس سمجھانے والے لوگ درکار ہوتے ہیں مگر شاید ہم یہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔
ہم بہرحال آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد شام کے وقت اورماڑہ پہنچ گئے‘ یہ شہر نیول بیس کی وجہ سے مشہور ہے اور ساحل کے ساتھ ساتھ آباد ہے‘ پانی بہت صاف اور خوب صورت ہے‘ ساحل پرکھڑے ہو کر ڈوبتے سورج کا نظارہ حقیقتاً حیران کن تجربہ تھا‘ اورماڑہ پہنچ کر ہماری ساری تھکاوٹ ختم ہو گئی‘ ہم لوگ دیر تک سمندر کے کنارے ٹہلتے اور دوڑتے رہے تاہم ہمیں رات کے وقت دو مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘ اورماڑہ میں دو پرائیویٹ ریزارٹ ہیں‘ بولان ریزارٹ پرانا ہے‘ اس کا آرکی ٹیکچر اور لوکیشن بہت خوب صورت ہے لیکن کمرے بنیادی سہولتوں سے مکمل محروم ہیں‘ واش بیسن‘ کموڈز اور ٹونٹیاں لیک کرتی ہیں‘
بستر گندے ہیں اور فرش پر گرد کی موٹی تہہ جمی رہتی ہے‘ آپ اگر لوکیشن اور آرکی ٹیکچر دیکھیں تو آپ عش عش کر اٹھیں گے لیکن کمروں کی حالت دیکھیں گے تو سر پکڑ لیں گے تاہم دوسرا ریزارٹ نیابھی ہے اور قدرے بہتر بھی مگر اس دن وہاں یوتھ کلب کا فنکشن تھا اور وہ مکمل بک تھا لہٰذا ہمیں مجبوراً بولان ریزارٹ میں رہنا پڑا اور ہماری پوری رات بے چینی اور پریشانی میں گزری‘ حکومت کو اگر واقعی سیاحت سے دل چسپی ہے تو یہ کم از کم ریزارٹ کی انتظامیہ کو ٹریننگ ہی دے دے‘ یہ ان کے ساتھ مل کر کمرے ٹھیک کرا دے آخر اس میں بھی کیا حرج ہے؟ کھانے کی صورت حال اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی‘ ہم نے کھانے کا بندوبست کراچی سے کیا تھا‘ کراچی سے کھانے کا سامان بھی آیا تھا اور پکانے والے بھی مگر ریزارٹ کی انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے کھانے میں تاخیر ہو گئی اور ہم اس کے معیار کو بھی قائم نہ رکھ سکے۔(جاری ہے)