احمد شاہ ایک پشتون بچہ ہے‘ یہ 2011ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوا تھا‘ بچپن سے گول مٹول اور معصوم تھا‘ ٹک ٹاک کا دور شروع ہوا تو اس کے والدین نے اس کی چند ویڈیوز ٹک ٹاک پر چڑھا دیں اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہو گیا‘ پوری دنیا میں سکرین اور ایڈورٹائزرز کو نئے چہرے چاہیے ہوتے ہیں‘ احمد شاہ بھی ایک ایسا ہی چہرہ تھا‘ یہ بھی سوشل میڈیا‘ ٹیلی ویژن اور اخبارات سے ہوتا ہوا اشتہارات تک پہنچ گیا‘ اس کے اشتہارات کی ایک سیریز ’’او پیچھے تو دیکھو‘‘ بہت مشہور ہوئی‘ یہ عموماً پبلک سروس میسج ہوتا تھا
جس میں مختلف لوگوں کو روک کر کہا جاتا تھا بھائی صاحب رک کر پیچھے بھی دیکھ لو‘ آپ کی وجہ سے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے یا آپ کی مہربانی سے ملک اور لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ‘ احمد شاہ کی یہ ٹیگ لائین بہت مشہور ہوئی تھی اور لوگ سر راہ چلتے چلتے خوب صورت پشتون لہجے میں ایک دوسرے کو کہتے رہتے تھے ’’او پیچھے تو دیکھو‘‘ اور اس کے بعد کہنے اور سننے والے دونوں قہقہے لگاتے تھے‘ احمد شاہ اب 13 سال کا لڑکا بن چکا ہے اور اب اشتہارات میں نہیں آتا لیکن اس کی ٹیگ لائین آج بھی اتنی مشہور ہے کہ یہ آپ کو رکشوں‘ بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے بھی نظر آتی ہے۔
میرے سابق دوست‘ سابق ہیرو اور سابق وزیراعظم عمران خان آج کل اڈیالہ جیل میں ہیں اور سردست ان کے حالات اچھے نہیں ہیں‘آپ حالات کی اس خرابی کی بے شمار وجوہات تلاش کر سکتے ہیں لیکن میری نظر میں ایک وجہ بہت اہم ہے‘ قدرت نے اس شخص کو فائیٹر بنایا ہے‘ فائیٹرز میں بے شمار خوبیاں ہوتی ہیں مگر ان میں دو خوف ناک خامیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے یہ ہمیشہ جیتنے کے باوجود فیل ہو جاتے ہیں‘ آپ چنگیز خان سے لے کر امیر تیمور‘ نپولین بونا پارٹ اور ہٹلر تک دنیا کے تمام بڑے فائیٹرز کا پروفائل دیکھ لیں‘ یہ لوگ آپ کو کام یاب ہونے کے باوجود کوئی دیرپا ریاست‘ کوئی ان منٹ فٹ پرنٹ یا کوئی ایسی لیگیسی (Legacy) چھوڑتے نظر نہیں آئیں گے جسے آنے والے لوگوں نے کیری کیا ہو‘ لوگوں نے صدیوں تک ان کا تذکرہ کیا ہو یا لوگ ان جیسا بننا چاہتے ہوں‘
یہ لوگ تاریخ میں ہمیشہ کیس سٹڈی کے طور پر لیے جاتے ہیں‘ لوگ اور ادارے ان کی فائل اٹھاتے ہیں‘ پڑھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں‘ ہم کچھ بھی کریں لیکن ہمیں یہ غلطیاں نہیں کرنی چاہییں‘ان لوگوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ یہ لوگ کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے‘ یہ کبھی رک کر اپنی حماقتوں کا تجزیہ نہیں کرتے چناں چہ جب یہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو تاریخ صدیوں تک ان کی غلطیاں چنتی رہتی ہے اور دوسری وجہ یہ لوگ جیتنے کے لیے ہر حد پار کر جاتے ہیں‘ یہ کام یابی کے لیے اخلاقیات‘ دوست احباب‘ خاندان‘ قانون‘ آئین اور ضمیر سب کچھ قربان کر دیتے ہیں اور آخر میں مکمل طور پر تباہ ہو جاتے ہیں‘ ہمارے ہیرو عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے‘ یہ سرتا پا فائیٹر ہیں‘ گیوپ اب نہیں کرتے‘ ہار نہیں مانتے اور ہر حال میں آگے سے آگے بڑھتے رہتے ہیں چناں چہ یہ بھی اکیلے سے مزید اکیلے اور تنہا سے مزید تنہا ہوتے جا رہے ہیں اور اس عالم میں اگر یہ کام یاب بھی ہو جائیں‘ یہ وزیراعظم بھی بن جائیں تو بھی ان کا انجام ہٹلر‘نپولین بوناپارٹ‘ امیر تیمور اور چنگیز خان سے مختلف نہیں ہو گا‘
یہ بھی بالآخر دنیا کے دوسرے نامور فائیٹرز کی طرح اپنے ہی مزار کے مجاور بنیں گے اور بس لہٰذا میرا مشورہ ہے یہ اگر اس فضول اور تھکا دینے والی جنگ سے باہر آ جائیں‘ لمبا سانس لیں اور ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھ لیں تو مجھے یقین ہے انہیں بڑی آسانی سے اپنے راستے میں بچھی اپنی حماقتوں کے تمام کانٹے صاف نظر آ جائیں گے‘ مثلاً ان کی پہلی حماقت 2021ء میں جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی رکھنے کی ضد تھی‘ جنرل فیض حمید اگرچلے بھی جاتے تو بھی یہ ان کے لیے مفید رہتے‘ یہ آرمی چیف بننا چاہتے تھے اور یہ جانتے تھے ان کا یہ کام صرف عمران خان کر سکتے ہیں چناں چہ یہ جہاں بھی ہوتے یہ عمران خان کا دایاں بازو ہوتے‘ دوسرا نیا ڈی جی بھی خان صاحب کا مونس اور غم گسار ہوتا مگر عمران خان کی ضد کی وجہ سے جنرل فیض حمید کا کیریئر بھی تباہ ہو گیا‘ یہ نئے ڈی جی کا اعتماد بھی حاصل نہ کر سکے اور فوج بھی ان کی کمر سے کھسک گئی اور یوں ان کے خلاف عدم اعتماد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہ عمران خان کی پہلی اور بڑی حماقت تھی‘ خان کو اگر پیچھے مڑ کر دیکھنے کی عادت ہوتی تو شایدیہ اس غلطی کے بعد دوسری غلطی نہ کرتے‘ یہ عدم اعتماد کو مردانگی کے ساتھ قبول کر لیتے‘ اقتدار پی ڈی ایم کے حوالے کرتے‘ اپوزیشن لیڈر بن کر قومی اسمبلی میں بیٹھ جاتے اور پھر تماشا دیکھتے‘ پی ٹی آئی کی دو صوبوں میں حکومت تھی اور قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس کی اکثریت تھی چناں چہ حکومت پارلیمنٹ سے ایک بھی بل پاس نہ کرا سکتی اور عمران خان کی اجازت کے بغیر پنجاب‘ کے پی‘ کشمیر اور گلگت بلتستان میں پائوں نہ رکھ سکتی‘ دوسرا پی ڈی ایم ایک دوسرے سے بھی لڑ پڑتی اور عمران خان تین ماہ میں دوبارہ وزیراعظم ہوتا یا پھر الیکشن ہو جاتے لیکن خان بہرحال خان ہے اور اس نے دوسری سیاسی حماقت بھی کر دی‘ یہ قومی اسمبلی سے استعفے دے کر باہر بیٹھ گیا اور اس کی سیاسی لگام پی ڈی ایم کے ہاتھ میں چلی گئی اور پھر اس نے دھڑا دھڑ بل پاس کرا کر پی ٹی آئی کو زمان پارک تک محدود کر دیا‘
عمران خان اگر یہاں بھی رک جاتا تو شاید زیادہ نقصان نہ ہوتا لیکن یہ اس کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک حماقت کرتا چلا گیا‘ اس نے سائفر جیسے فضول کاغذ کو اپنی ڈھال بنا کر لوکل کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنا دشمن بنا لیا‘ پنجاب اور کے پی کی اسمبلی توڑ کر اپنے ہی جہاز کے پیندے میں سوراخ کر لیا اور یہ اس کے بعد اپنی اس فوج اور عدلیہ سے بھی ٹکرا گیا جو اسے اقتدار میں لے کر آئی تھی اور جس نے اسے دوسری مرتبہ بھی اقتدار میں لانا تھا‘ یہ اگر یہاں بھی رک جاتا تو شاید اس کی واپسی ہو جاتی لیکن اس نے نئے آرمی چیف کا راستہ روکنے کے لیے ایوان صدر میں جنرل باجوہ سے ملاقاتیں شروع کر دیں اور یہ آخر میں سڑکوں پر ریلی بھی لے آیا اور پھر اس کی آخری اور سب سے بڑی حماقت 9مئی تھی‘ اس نے غلیل کے ساتھ ایٹم بم پر حملہ کر دیا اور پھروہی ہوا جس کا خوف تھا‘ یہ اس کنوئیں میں جا گرا جہاں سے نکلنا اب آسان نہیں۔
عمران خان کو اب بھی چاہیے یہ سانس لے اور مڑ کر پیچھے دیکھے‘ اپنی غلطیوں کی فہرست بنائے‘ ان کا اعتراف کرے اور مثبت اپروچ کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کرے تو یہ اب بھی کام یاب ہو سکتا ہے‘ قدرت انسان کو مرنے تک اصلاح کا موقع دیتی رہتی ہے‘ ہم اگر زندہ ہیں تو پھر ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں اور عمران خان اس معاملے میں انتہائی خوش نصیب ہے‘ یہ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی سلامت ہے اور جیل سے بھی ملک کی تنابیں کھینچ رہا ہے‘ یہ آج بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت ہے لہٰذا اسے چاہیے یہ پیچھے مڑ کر دیکھے اور یہ تسلیم کرے یہ خود‘ پارٹی اور یہ پورا ملک صرف اور صرف اس کی حماقتوں کی وجہ سے اس حال تک پہنچا ہے‘ آج اگر اس کے ورکرز جیلوں میں سڑ رہے ہیں‘ اس کے لیڈرز زیر زمین ہیں یا تتر بتر ہیں یا دوسری پارٹیوں میں پناہ گزین ہیں تو اس کا ذمہ دار صرف اور صرف عمران خان ہے‘
آج اگر یہ خود جیل میں ہے اور اس پر قطار اندر قطار مقدمے اتر رہے ہیں اور جیل کا عملہ اس کی اس کے بیٹوں سے ملاقات نہیں کرا رہا تو اس کی ذمہ داری بھی صرف اور صرف اس کے کندھوں پر آتی ہے‘ آج اگر اس کی پارٹی بلے سے محروم ہے تو اس کا ذمہ دار بھی عمران خان ہے‘ آج اگر نواز شریف پاکستان میں ہیں اور ریاست اگر کھل کر ان کا ساتھ دے رہی ہے تو اس کا سہرا بھی عمران خان کے سر جاتا ہے اور آج اگر وکلاء عمران خان اور پارٹی کے مقدمے نہیں لڑ پا رہے تو اس ناکامی کا ذمہ دار بھی عمران خان ہے‘دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں آپ اگر وکلاء کو الیکشن بھی لڑائیںگے‘
پارٹی کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر ڈال دیں گے اور آخر میں انہیں صبح سویرے عدالتوں میں بھی کھڑا کر دیں گے تو پھر یہ آپ کے لیے میڈلز کہاں سے لے کر آئیں گے؟ آپ خود سوچیں اگر جہاز کا پائلٹ جہاز اڑانے کے ساتھ ساتھ مسافروں کو کھانا بھی کھلائے گا‘ واش روم بھی صاف کرے گا اور مسافروں کا سامان بھی اٹھائے گا تو پھر اس جہاز کا کیا بنے گا؟ عمران خان نے وکلاء کے ساتھ یہی سلوک کیا لہٰذا اس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا‘ جہاز تباہ ہو گیا‘ خان کو چاہیے یہ پیچھے دیکھے‘ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے اور پھر ایک گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے آگے بڑھے‘ یہ پھر کام یاب ہو گا ورنہ اگر یہ طاقت کے ساتھ اقتدار میں آ بھی گیا توبھی اس کا انجام شیخ مجیب الرحمن سے مختلف نہیں ہو گا‘ یہ سیڑھیوں سے نیچے نہیں اتر سکے گا چناں چہ خان صاحب پلیز پیچھے تو مڑ کر دیکھو‘ پیچھے پورا باغ اجڑ چکا ہے‘ آپ کے پاس زیادہ آپشن نہیں بچے ۔