اور ایک قبر پر روزانہ پادری اپنے عملے کے ساتھ آتا ہے‘ قبر پر ’’ہولی واٹر‘‘ کا چھڑکاؤ کرتا ہے اور پھر تابوت کے کنارے کھڑے ہو کر دیر تک بائبل کی تلاوت کرتا ہے‘ یہ رسم بھی 70 سال سے جاری ہے۔
پتا چلا باباجی نے انتقال سے قبل چرچ بنوایا تھا اور یہ شرط رکھی تھی چرچ کا پادری تمام مونکس کے ساتھ روزانہ قبر پر حاضری دے گا اور تلاوت کرے گا اور اگر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تو باباجی کی جائیداد ویلفیئر ٹرسٹ میں چلی جائے گی اور چرچ کی امداد بند ہو جائے گی چناں چہ پادری اپنی اور اپنے حواریوں کی مراعات کے لیے روزانہ قبر پر حاضری دیتا ہے۔
آپ اب صورت حال ملاحظہ کیجیے‘ پادری عام آدمی کو صرف اتوار کے دن عبادت کراتا ہے جب کہ باباجی کی قبر پر گرمی ہو یا سردی روزانہ حاضر ہوتا ہے اور پورے طائفے کے ساتھ عبادت کرتا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا ہے اگر میں نے سستی کر دی تو میں بے روزگار ہو جاؤں گا۔
بیونس آئرس کا مرکز بھی دیکھنے لائق ہے‘ چوک کے درمیان میں صدارتی دفتر ہے‘ یہ سرخ اینٹوں کی وسیع عمارت ہے‘ صدر کا ہیلی پیڈ گرین ایریا کے درمیان ہے اور اس کے تین اطراف سڑکیں ہیں‘ صدر روزانہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے دفتر آتا اور واپس جاتا ہے۔
ہیلی کاپٹر عوام کے سامنے اترتا اور اڑتا ہے اور عوام یہ نظارہ براہ راست دیکھتے ہیں اور اس دوران وہاں پولیس ہوتی ہے اور نہ ہی فوج‘ صدر عوام کی طرف دیکھ کر ہاتھ بھی ہلاتا ہے اور لوگ سڑک پر کھڑے ہو کر جواباً ہاتھ ہلاتے ہیں‘ صدارتی آفس کے سامنے پارک ہے اور پارک کی دوسری سمت بیونس آئرس کی پہلی سرکاری عمارت ہے‘ یہ سفید رنگ کی کلونیل اسٹائل کی عمارت ہے اور یہ اب میوزیم بن چکی ہے۔
ارجنٹائن میں مارچ 1976 میں مارشل لاء لگا تھا‘ جنرل جارج رافیل حکومت پر قابض ہو گیا تھا‘ عوام نے احتجاج کیا تو جنرل رافیل نے 30ہزار لوگ گھروں سے اٹھا لیے‘ مسنگ پرسنز کی مائیں اپنے بیٹوں کی رہائی کے لیے ہر جمعرات کے دن صدارتی محل کے سامنے مظاہرہ کیا کرتی تھیں‘ شہر کی دوسری مائیں بھی ان کی سپورٹ میں وہاں جمع ہو جاتی تھیں‘ یہ روایت آج 47سال کے بعد بھی جاری ہے‘آج بھی مائیں آتی ہیں اور صدارتی محل کے سامنے احتجاج کرتی ہیں۔
ہم نے بھی ایک ایسے مظاہرے میں شرکت کی‘ پارک میں سیکڑوں مرد اور عورتیں جمع تھیں‘ ان کی قیادت پادری کر رہا تھا‘ پادری نے حضرت مریم ؑ کا مجسمہ اٹھا رکھا تھا‘ شرکاء نے سب سے پہلے پارک میں عبادت کی اور پھر تعزیے کی طرح حضرت مریم ؑ کا مجسمہ اٹھا کر مارچ کرتے ہوئے صدارتی محل کے دروازے تک گئے اور پھر منتشر ہو گئے۔
مجھے وہاں کسی قسم کی پولیس فورس یا فوج دکھائی نہیں دی‘ صرف زنانہ پولیس کی تین اہلکار تھیں اور بس تاہم ذرا سے فاصلے پر ایمبولینس اور طبی عملہ کھڑا تھا‘ بیونس آئرس کا قدیم چرچ صدارتی محل کی دائیں جانب برآمدوں میں واقع ہے‘ یہ باہر سے پلازہ محسوس ہوتا ہے لیکن اندر انتہائی خوب صورت اور وسیع عمارت ہے اور یہ چھوٹا سا ویٹی کن سٹی محسوس ہوتا ہے‘ صدارتی محل کے ساتھ ہی ڈیفنس اسٹریٹ ہے۔
یہ بیونس آئرس کی قدیم دفاعی اور تجارتی گلی ہے‘ برطانیہ نے جب ارجنٹائن پر حملہ کیا تو اس گلی کے مکینوں نے اپنی چھتوں سے گرم تیل اور پتھروں کے ذریعے ٹھیک ٹھاک مزاحمت کی تھی‘اس مزاحمت کی یاد میں گلی کا نام ڈیفنسا (ڈیفنس) رکھ دیا گیا۔
یہ گلی بھی بیونس آئرس میں ’’مسٹ وزٹ‘‘ ہے‘ اس کی دونوں سائیڈز پر پرانی عمارتیں‘ کافی شاپس اور سووینئر شاپس ہیں‘ یہ گلی آخر میں ایک ایسے چوک میں ختم ہوتی ہے جسے آرٹسٹوں کا اسکوائر کہا جاتا ہے‘ وہاں مصور کھڑے ہو کر سیاحوں کی پینٹنگز بناتے ہیں‘ وہ بھی ایک بارونق جگہ تھی۔
ارجنٹائن ایک دل چسپ ملک ہے‘ لوگ بہت مہذب اور خوب صورت ہیں‘ خواتین میک اپ نہیں کرتیں‘ کیوں؟ کیوں کہ انھیں میک اپ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی‘ارجنٹائن میں یورپ کی مختلف نسلوں کے اتصال سے ایک ایسی خوب صورت نسل پیدا ہو ئی جو میک اپ کی ضرورت سے مکمل طور پر آزاد ہے۔
خواتین کو لپ سٹک تک نہیں لگانی پڑتی‘ عورتیں سونے کے زیورات بھی نہیں پہنتیں لہٰذا ارجنٹائن میں زیورات کی دکانیں نہیں ہیں تاہم چاندی کے ہلکے زیورات کا رجحان ہے اور یہ صنعت بھارتی اور پاکستانیوں کے کنٹرول میں ہے‘ تعلیم یونیورسٹی تک فری ہے اور انتہائی خوف ناک انفلیشن کے باوجود آج تک فری ہے۔
اس کا معیار بھی بہت اعلیٰ ہے‘یہ لوگ میڈیکل سائنس میں بہت آگے ہیں‘ دنیا کے بے شمار امراض کے علاج ارجنٹائن میں ایجاد ہوئے‘ یہ لوگ 15 سال کی بچی کو دلہن بناتے ہیں‘ اس کے اعزاز میں فنکشن کرتے ہیں اور آخر میں اس بچی کو پورے شہر کا وزٹ کراتے ہیں‘ اس تقریب کا یہ مطلب ہوتا ہے یہ بچی اب آزاد ہو چکی ہے اور یہ اب اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکتی ہے اور ننانوے فیصد لڑکیاں 15 سال کے بعداپنے فیصلے خود شروع کر دیتی ہیں۔
انفلیشن کی وجہ سے ارجنٹائن میں نشئیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو رہا ہے‘ نشئی سڑکوں‘ چوکوں اور برآمدوں میں پڑے دکھائی دیتے ہیں‘ یہ سرِعام بھیک بھی مانگ رہے ہوتے ہیں‘ پتا چلا ملک کے وسط میں روزاریو(Rosario)نام کا ایک شہر ہے جس میں منشیات عام ملتی ہیں اور اس کاروبار کو وہاں باقاعدہ سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔
ارجنٹائن کے نشئیوں نے ایک انوکھا نشہ بھی ایجاد کر لیا ہے‘ یہ تمام نشوں کو ملا کر نشہ بناتے ہیں‘ یہ انتہائی خوف ناک ہوتا ہے اور بے شمار نوجوان اس کی وجہ سے روزانہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں‘ ارجنٹائن میں نشئیوں کی تعداد میں اس لیے بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ جب تک نشئی خود نہ چاہیے اس وقت تک فیملی‘ کونسل یا حکومت اس کا علاج نہیں کرا سکتی۔
اس نوعیت کا قانون دنیا کے کسی دوسرے ملک میں موجود نہیں‘ میں روزانہ ہوٹل کی کھڑکی سے نشئیوں کو لاشوں کی طرح برآمدوں میں پڑا دیکھتا تھا‘ صبح ان کی فیملیز آتی تھیں اور مائیں ان کے سر گود میں رکھ کر دیر تک روتی رہتی تھیں‘ یہ مناظر دیکھ کر میری آنکھیں بھی بھیک جاتی تھیں‘ یہ ارجنٹائن کی تاریک سائیڈ تھی جب کہ دوسری طرف میں نے بیونس آئرس کی 98 فیصد آبادی کو ورزش کرتے اور پارکس میں ہنستے کھیلتے دیکھا‘ یہ لوگ پارکس کے دیوانے ہیں۔
پورے شہر میں درجنوں پارکس اور گرین ایریاز ہیں اور شام کے وقت تمام آبادی گھروں اور دفتروں سے نکل کر ان میں بیٹھ جاتی ہے‘ لوگ سائیکل بھی چلاتے ہیں‘ دوڑ بھی لگاتے ہیں اور بچوں کے ساتھ بھی کھیلتے ہیں‘ رات کا کھانا باہر کھانے کا رجحان بھی عام ہے شاید اسی لیے ہزاروں کی تعداد میں ریستوران ہیں اور یہ دروازے تک بھرے ہوتے ہیں۔
یہ لوگ دوسروں پر توجہ نہیں دیتے‘ کسی دوسرے کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھتے‘ صرف اپنے اوپر فوکس کرتے ہیں‘ لباس بہت صاف ستھرا اور قیمتی پہنتے ہیں‘ کھانے پینے پر بہت رقم خرچ کرتے ہیں‘ چھوٹے گھروں اور کمروں میں رہتے ہیں‘ مہمانوں کو صرف کافی شاپ اور ریستوران میں ملتے ہیں‘ شراب بہت پیتے ہیں‘ شام کے وقت آپ کو ہر شخص کے منہ سے شراب کی بو آتی ہے‘ چھٹیوں کے دنوں میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے۔
ارجنٹائن کی وائین اور بیئر پوری دنیا میں مشہور ہے اور آدھی سے زیادہ یہ لوگ خود پی جاتے ہیں‘ ان کا گوشت اور ڈیری مصنوعات بھی مشہور ہیں‘ آپ اگر شہر سے باہر نکل جائیں تو آپ کو ہزاروں کلو میٹر تک چراہ گاہیں اور ان میں صحت مند گائیں چرتی ہوئی ملتی ہیں‘ ارجنٹائنی اسٹیکس بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔
مجھے ایک لبنانی ریستوران پر حلال اسٹیک مل گیا‘ میں اس سے اس قدر متاثر ہوا کہ دوسرے دن دوبارہ وہاں پہنچ گیا مگر اس دن اس کے پاس حلال گوشت نہیں تھا اور یوں میں اسٹیک سے محروم رہ گیا اور مجھے آج تک اس کا افسوس ہے‘ یہ لوگ گائے کے گوشت کو باربی کیو بھی کرتے ہیں‘ اسے یہ لوکل زبان میں اسادو (Asado) کہتے ہیں اور یہ انتہائی مزے دار ہوتا ہے‘ یہ ماتے نام کا ایک مشروب بھی پیتے ہیں۔۔
ماتے پورے ملک میں پیا جاتا ہے اور ہر عمر کے مرد اور عورتیں اسے انجوائے کرتے ہیں‘ اس کے کپ اور اسٹرا پورے ملک میں ملتے ہیں‘ماتے جڑی بوٹیوں کا ایک ایسا مرکب ہوتا ہے جس میں گرم پانی ڈال کر اسٹرا کے ساتھ پیا جاتا ہے ‘ یہ نشہ آور بھی ہوتا ہے‘ آپ ملک میں کہیں چلے جائیں آپ کو لوگ وہاں ماتے پیتے ہوئے نظر آئیں گے حتیٰ کہ ٹیکسی ڈرائیور اور بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای او بھی ہاتھ میں ماتے کا کپ اور کندھے پر گرم پانی کا تھرماس لٹکائے نظر آئیں گے‘ بیونس آئرس کے مرکز میں کچی آبادی بھی ہے۔
اس میں 7 لاکھ لوگ رہتے ہیں اور ان کی حالت بہت پتلی ہے‘ زیادہ تر لوگ بولیویا‘ پیرو‘ وینزویلا اور پیرا گوئے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ پست سطح کی نوکریاں کرتے ہیں‘ سوسائٹی فری سیکس ہے‘ لیونگ ریلیشن شپ عام ہے‘ شادیوں کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ لوگ ویک اینڈ پر دو دن کے لیے بھی جوڑا بن جاتے ہیں‘ خواتین کافی شاپس اور ریستورانوں میں بیٹھ جاتی ہیں اور ’’پوچھنے‘‘ پر ہرگز برا نہیں مناتیں لیکن پوچھنے والے کی جیب بھاری ہونی چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ قحبہ گری پر بھی پابندی ہے‘ یہ لوگ مذہب بیزار بھی ہیں‘ ایک طرف پوپ فرانسس کا تعلق ارجنٹائن سے ہے اور دوسری طرف آدھی سے زیادہ آبادی لادین ہے اور یہ ایک دل چسپ اور ناقابل فہم بات ہے۔