مجھے دو ہفتے قبل لاہور سے کسی صاحب نے اپنی کتاب بھیجی‘ کتاب کا ٹائٹل اور نام دونوں جذباتی تھے لہٰذا میں نے پڑھے اور دیکھے بغیر سائیڈ پر رکھ دی‘ میں نے چند دن قبل پڑھنے کے لیے کتابیں دیکھنی شروع کیں‘ یہ اچانک میرے ہاتھ لگ گئی اور میں نے نیم دلی کے ساتھ ورک گردانی شروع کر دی اور پھر میں ہرچیز بھول گیا اور کتاب پڑھتا چلا گیا۔
یہ کتاب‘ کتاب نہیں تھی‘ زندگی کا ایک ایسا درس تھا جسے ہم ننانوے فیصد فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ میں نے دو دن میں چار سو صفحات کی کتاب ختم کر لی اور اس کے بعد مصنف کو فون کیا اور اس کی عظمت‘ ہمت اور استقلال کو کھڑے ہو کر سلام پیش کیا‘ بے شک اس شخص نے صرف کتاب نہیں لکھی تھی‘ اس نے کتاب زندگی تحریر کی اور اس کتاب زندگی کو ہر اس شخص کو پڑھنا چاہیے جو زندگی سے مایوس ہو رہا ہے یا پھر جسے زندگی کی قدر نہیں یا پھر جو زندگی کے مسائل سے جلد گھبرا جاتا ہے۔
میرا اب مصنف کے ساتھ عقیدت اور شاگردی کا رشتہ بن چکا ہے اور میرا دعویٰ ہے آپ بھی اگر یہ کتاب پڑھیں گے تو آپ بھی اسی بندھن میں بندھ جائیں گے۔یہ کتاب (درد کا سفر) پھلروان شہر کے ایک عام سے نوجوان امجد صدیقی کی داستان حیات ہے اور اسے اس ہی نے لکھا ہے، اگر وہ یورپ یا امریکا میں ہوتا تو اب تک ان پر دس بیس فلمیں بن چکی ہوتیں‘ بھارت میں بہرحال ان پر فلم بن رہی ہے تاہم یہ اب تک درجنوں بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔
امجد صدیقی کون ہیں اور انھوں نے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دیا جس نے مجھ جیسے پریکٹیکل شخص کو بھی حیران کر دیا‘ امجد صدیقی کے والد کپڑے کا کاروبار بھی کرتے تھے اور اخبارات کے ڈسٹری بیوٹر اور نامہ نگار بھی تھے‘ امجد صدیقی بچپن میں لوگوں کے گھروں میں اخبارات پھینکتے رہے‘ یہ 1979 میں روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے اور بڑی مشکل سے بینک میں ٹائپسٹ کی نوکری حاصل کر لی‘ پنجاب میں اس زمانے میں اگر لڑکا سعودی عرب چلا گیاہو‘اسے ملازمت مل گئی ہو تو رشتوں کی لائین لگ جاتی تھی۔
امجد صدیقی کے ساتھ بھی یہی ہوا اور ان کی والدہ نے ایک خوب صورت لڑکی سے ان کی منگنی کر دی اور یوں یہ لوگ خوش اور مطمئن ہو گئے اور ہر چیز منشا کے مطابق پرفیکٹ چلنے لگی لیکن پھر یہ زیارت اور دعا کے لیے مدینہ منورہ گئے‘ واپسی پر کار کا ایکسیڈنٹ ہوا اور ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا‘ ایکسیڈنٹ کے بعد زخمیوں کو ہمیشہ گاڑی کاٹ کر ڈاکٹر کی نگرانی میں باہر نکالا جاتا ہے کیوں کہ زخمی عموماً ایکسیڈنٹ میں اتنے مضروب نہیں ہوتے جتنے یہ گاڑی سے نکالنے کے عمل کے دوران مخدوش ہو جاتے ہیں۔
امجد صدیقی کو مقامی لوگوں نے گاڑی سے کھینچ کر نکالا جس کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ ان کا جسم سینے سے نیچے معذور ہو گیا‘ یہ صرف بازو اور گردن ہلا سکتے تھے‘ اس سے نیچے ان کے جسم میں کوئی حرکت تھی اور نہ ہی حس‘ انھیں ٹھنڈے اور گرم کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا اور ان کے جسم کو اگر چھری سے کاٹ دیا جاتا تو بھی انھیں پتا نہیں چلتا تھا‘ یہ ایک خوف ناک صورت حال تھی لیکن اس سے بھی زیادہ خوف ناک اور تشویش ناک صورت حال آگے تھی‘ ان کا اپنے پاخانے اور پیشاب پر کنٹرول ختم ہوگیا تھا۔
یہ مسلسل نکلتے رہتے تھے اور انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا بہرحال قصہ مختصر امجد صدیقی نے اس صورت حال میں بھی ہمت ہارنے سے انکار کر دیا اور کام یاب اور قابل فخر زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا‘ خاندان‘ عزیز رشتے دار‘ دوست احباب اور معاشرہ انھیں بھکاری بنانا چاہتا تھا مگر یہ شخص پوری زندگی اپنی معذوری اور معاشرے سے لڑتا رہا‘ انھیں خاندان اور رشتے دار چھوڑ گئے‘ ان کی منگنی ٹوٹ گئی‘ لوگ ان سے ہاتھ ملانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔
پورا خاندان انھیں پاکستان لا کر کمرے تک محدود کرنا چاہتا تھا مگر اس شخص نے ہمت نہ ہاری‘ امجد صدیقی نے اپنے دونوں بازوئوں کو اتنا مضبوط بنا لیا کہ یہ ان کا نوے فیصد معذور جسم اٹھانے لگے‘ یہ ویل چیئر پر آئے اور پوری دنیا فتح کر لی‘امجد صدیقی کی آپ بیتی ’’درد کا سفر‘‘ ایک ایسے معذور مگر کام یاب اور خوش حال شخص کی کہانی ہے جس نے معاشرے کی کسی بھی رکاوٹ کو اپنا راستہ نہیں روکنے دیا‘یہ اسپتال کیسے پہنچے‘ بستر سے کیسے اٹھے‘ ویل چیئر کو اپنا سہارا کیسے بنایا‘ گاڑی چلانا کیسے سیکھی‘ ویل چیئر پر بیٹھے بیٹھے گاڑی کے ٹائر کیسے بدلے‘ اپنی ویل چیئر اکیلے سیڑھیوں سے نیچے اتارنا کیسے سیکھا‘ یہ عزیزوں اور رشتے داروں کی نفرت اور حقارت سے کیسے نکلے اور معذوری کے باوجود نوکری کیسے حاصل کی یہ ایک حیران کن داستان ہے۔
یہ ہاتھ سے پندرہ پندرہ کلو میٹر ویل چیئر چلاکر دفترپہنچتے تھے‘ کیسے؟یہ بزنس کی دنیا میں کیسے آئے‘ کروڑوں روپے کیسے کمائے‘ معذوری کے باوجود 60 ملکوں کا سفر کیسے کیا اور آخر میں شادی کیسے کی اور یہ اب کیا کیا کر رہے ہیں؟ یہ ایک ناقابل یقین داستان ہے اور ملک کے ہر شخص بالخصوص ہر معذور شخص کو ضرور پڑھنی چاہیے‘ میرا بس چلے تو میں اس کتاب کو سلیبس کا حصہ بنا دوں ۔
امجد صدیقی کو زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کے لیے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ بھی ناقابل بیان ہے‘ مثلاً میں چند چیزیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘آپ اس سے اس شخص کی اسٹرگل کا اندازہ کر لیجیے‘ صدیقی صاحب جس زمانے میں ویل چیئر پر آئے تھے اس دور میں نارمل انسان کو بھی نوکری نہیں ملتی تھی جب کہ یہ 90 فیصد مفلوج تھے لہٰذا یہ روزگار کیسے حاصل کرتے ؟
اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا مگر امجد صدیقی نے یہ رکاوٹ بھی عبور کر لی‘ یہ مسلسل اپنے سابق بینک کے چکر لگاتے رہے اور انھیں بالآخر قائل کر لیا آپ مجھے تین ماہ کے لیے بلامعاوضہ ملازم رکھ لیں میں نے اگر آپ کی ریکوائرمنٹس پوری کر لیں تو مجھے ملازمت دے دیجیے گا ورنہ میں چلا جائوں گا‘ بینک راضی ہو گیا اور اس کے بعد یہ شخص روزانہ ہاتھ سے 15 کلو میٹر ویل چیئر چلا کر بینک جاتا رہا‘ یہ اس سفر کے لیے رات تین بجے اٹھتے تھے‘ تیار ہوتے تھے‘ہاتھ سے ویل چیئر دھکیل کر 15 کلو میٹر کا سفر کرتے تھے اور بینک کھلنے سے ایک گھنٹہ پہلے وہاں پہنچ جاتے تھے اور اس روٹین میں ایک دن بھی تعطل نہیں آیا‘ یہ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے تھے؟
کیوں کہ بسوں اور ٹیکسیوں میں اس زمانے میں ویل چیئر کی گنجائش نہیں ہوتی تھی‘ صدیقی صاحب نے دفتر میں اپنی ٹائپنگ اسپیڈ عام لوگوں سے بڑھا لی تھی لہٰذا یہ بینک میں چار لوگوں کے برابر کام کرتے تھے‘ انھیں جتنا بھی کام دے دیا جاتا تھا یہ انکار نہیں کر تے تھے اور اپنا کام مکمل کر کے گھر جاتے تھے‘ بینک کی انتظامیہ ان کے اس ڈسپلن اور کارکردگی سے متاثر ہوگئی اور انھیں پہلے مہینے ہی تنخواہ دے دی‘ سعودی عرب میں اس زمانے میں معذور آدمی کو کوئی شخص کرائے پر مکان نہیں دیتا تھا‘ امجد صدیقی نے مکان حاصل کرنے کے لیے جتنی جدوجہد کی یہ بھی ایک طلسم ہوش ربا ہے۔
ویل چیئر پر پڑے لوگوں کو عمارتوں اور مکانوں میں داخل ہونے کے لیے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے امجد صدیقی نے یہ واقعات بھی تفصیل سے لکھے‘ مثلاً میونسپل کمیٹی ایک بار ان کے گھر کے سامنے کھڈا کھود کر چلی گئی‘ یہ رات دیر گئے گھر واپس آئے تو ان کے گھر کے سامنے گڑھا کھدا ہوا تھا‘ یہ اکیلے رہتے تھے لہٰذا ویل چیئر سمیت گڑھے میں گر گئے اور پوری رات ویل چیئر کو گھسیٹ کر باہر نکلنے کی سعی کرتے رہے۔
میں کتاب کا یہ پورشن پڑھتے ہوئے رو پڑا تھا‘ اس زمانے میں معذوروں کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی‘ امجد صدیقی نے یہ اجازت بھی حاصل کی‘ گاڑی بھی خریدی اور یہ اسے چلاتے بھی رہے‘ یہ ویل چیئر کو کس طرح گاڑی کے قریب لاتے تھے پھر بازوئوں کی طاقت سے کس طرح اچھل کر ڈرائیونگ سیٹ پر گرتے تھے اور پھر ویل چیئر کو کس طرح سڑک سے اٹھا کر فولڈ کرتے تھے اور اسے کس طرح سائیڈ سیٹ پر ایڈجسٹ کرتے تھے‘ یہ پورشن بھی ناقابل یقین ہے۔
ایک بار ہائی وے پران کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا‘ امجد صدیقی گھنٹوں ویل چیئر پر بیٹھ کر مدد کا انتظار کرتے رہے لیکن جب کوئی گاڑی نہ رکی تو پھر انھوں نے ویل چیئر پر بیٹھ کر ٹائر کیسے تبدیل کیا یہ بھی ایک دل دہلا دینے والی داستان ہے‘ ان کے ساتھ جہازوں میں کیا سلوک ہوتا تھا‘ ائیر لائینز کس طرح انکار کرتی تھیں‘ کس طرح انھیں گھسیٹ کر سیٹوں پر بٹھایا اور اٹھایا جاتا تھا‘ ساتھی مسافر کس طرح ان سے پرہیز کرتے تھے‘ ان کی ویل چیئر پیک کرتے وقت کس طرح توڑ دی جاتی تھی اور پھر یہ ائیرپورٹ سے کس طرح نکلتے تھے‘ ان کو نوکری سے کس طرح نکالا گیا اور انھوں نے کندھوں پر تولیے رکھ کر کس طرح ویل چیئر پر کاروبار شروع کیا اور یہ کس طرح ایک کام یاب بزنس مین بنے۔
یہ جہاز کے سفر کے دوران اپنا پیشاب اور پاخانہ کیسے کنٹرول کرتے تھے اور اگر سفر کے دوران ایمرجنسی ہو جاتی تھی تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا اور پھر انھوں نے شادی کیسے کی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد سے کیسے نوازا‘ یہ بھی ایک حیران کن داستان ہے اور یہ داستان بھی رونے پر مجبور کر دیتی ہے۔
امجد صدیقی واقعی پاکستان کے ہیرو ہیں‘ انھیں پاکستان کا بہادری کا سب سے بڑا ایوارڈ ملنا چاہیے اور ان کی کتاب ’’درد کا سفر‘‘ بھی ہر شخص کو پڑھنی چاہیے‘ میرا دعویٰ ہے یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کو زندگی کی کوئی بھی مشکل‘ مشکل محسوس نہیں ہو گی‘ آپ کو زندگی کے تمام مسائل سے پیار ہو جائے گا اور آپ روز اپنے آپ سے کہیں گے اگر امجد صدیقی کر سکتا ہے تو میں یہ کیوں نہیں کر سکتا؟
دوسرا آپ اس اﷲ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جس نے آپ کو مکمل بھی بنایا اور آپ کو اپنا جسم اور اپنی ضروریات بھی خود پوری کرنے کا سلیقہ دیا‘ اﷲ آپ پر کتنا مہربان اور رحیم ہے آپ کو اس کا احساس بھی یہ کتاب پڑھ کر ہوگا اور آپ بھی میری طرح آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے، امجد صدیقی صاحب تسی گریٹ ہو اور آپ بھی دونوں ہاتھوں سے ان کی عظمت کو سلام پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔