خاتون کا شاپنگ بیگ پھٹ گیا‘ اس میں سے ایک سرخ سیب نکلا‘ سڑک پر گرا اور لڑھکنے لگا‘ خاتون نے بیگ فوراً سنبھال لیا‘ میرا موٹر سائیکل اس موٹر سائیکل کے پیچھے تھا‘ وہ غالباً میاں بیوی تھے اور سیب خرید کر گھر جا رہے تھے‘ خاوند موٹر سائیکل چلا رہا تھا جب کہ بیوی گود میں سیبوں کا بیگ رکھ کر بیٹھی تھی‘ بیگ پھٹ گیا اور اس میں سے ایک سیب نکل کر سڑک پر لڑھکنے لگا۔
سڑک پر رش تھا‘ درجنوں گاڑیاں‘ موٹر سائیکل اور سائیکل گزر رہے تھے‘ مجھے محسوس ہوا سیب کسی نہ کسی ٹائر کی زد میں آ کر چورا ہو جائے گا مگر سیب ہر گاڑی‘ ہر ٹائر سے بچتا ہوا تیزی سے آگے بڑھا اور لڑھکتا ہوا سڑک کے کنارے پہنچ گیا‘ کنارے پر پلی تھی اور پلی پر ایک بھکاری بیٹھا تھا‘ سیب لڑھکتا ہوابھکاری کے قریب آیا اور گیند کی طرح اچھل کر اس کی رینج میں آ گیا‘ بھکاری نے سیب اچکا‘ اپنی میلی اور گندی قمیض کے ساتھ رگڑ کر صاف کیا اور کچڑ کچڑ کھانے لگا‘ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرا بھی رہا تھا۔
میں نے موٹر سائیکل روک لی‘ اسے سلام کیا اوراس سے پوچھا یہ سیب تم تک کیسے پہنچ گیا؟ بھکاری نے قہقہہ لگایا اور بولا‘ میں نے ابھی ابھی اﷲ سے شکوہ کیا تھا یا باری تعالیٰ تیرے بندے کو سیب کھائے ہوئے مدت ہو گئی ہے اگر تم مہربانی کر دو تو میں بھی جاتے موسم کا سیب چکھ لوں اور پھر پتا نہیں کہاں سے یہ سیب آیا اور اچھل کر میرے ہاتھ تک پہنچ گیا‘بھکاری اس کے بعد شکر ادا کرنے لگا‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے بھکاری
سے ہاتھ ملایا اور آگے روانہ ہو گیا‘ میری آنکھیں کھولنے کے لیے یہ واقعہ کافی تھا۔
مجھے یہ واقعہ چند دن قبل کسی دوست نے سنایا‘ یہ ایک عام سا معمولی واقعہ تھا لیکن میں کیوں کہ آج کل قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں لہٰذا یہ سیدھا میرے دل میں جا لگا‘ اﷲ تعالیٰ پورے قرآن مجید میں اپنے احسانات‘ معجزوں اور رحمتوں کا ذکر کرتا ہے‘ وہ بار بار کہتا ہے تمہارا رب صرف میں ہوں اور جب تک میں نہ چاہوں دنیا میں کوئی کسی کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ چھین سکتا ہے، بس تم میرا شکر ادا کیا کرو اور اپنی غلطیوں اور نادانیوں پر توبہ کرتے رہا کرو۔
میں جوں جوں قرآن پڑھتا جا رہا ہوں‘ میری آنکھیں کھلتی جا رہی ہیں‘ یہ روشنی‘ یہ رغبت اور یہ ہدایت بھی صرف اور صرف اسی کی عنایت ہے‘ یہ بھی صرف اسی کا کرم‘ اسی کا رحم ہے‘ اﷲ نے قرآن مجید میں دوبار فرمایا‘ نصیحت کو صرف عقل والے قبول کرتے ہیں‘ کیا شان دار اور لازوال فرمان ہے‘بے شک عقل اور نعمت اﷲ کی بہت بڑی عنایت ہیں‘ ہم اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر اس کا نام تک نہیں لے سکتے‘ میں نے بہرحال اس حالت میں یہ واقعہ سنا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اﷲ تعالیٰ کس طرح چھوٹے چھوٹے واقعات سے اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ہے‘ میرے پاس چند برس قبل ایک گورا سیاح آیا‘ یہ سکردو ایکسپلور کرنے پاکستان آیا تھا‘ کسی دوست نے اس کا میرے ساتھ رابطہ کرادیا‘ میں نے اس کے سامنے چائے اور پکوڑے رکھ دیے‘ وہ بڑی دیر تک دونوں چیزوں کو دیکھتا رہا اور پھر شرما کر پوچھا‘ کیا آپ اپنے تمام مہمانوں کو یہی دو چیزیں پیش کرتے ہیں‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا نہیں‘ یہ پہلا موقع ہے‘ ہم عموماً اپنے مہمانوں کوچائے کے ساتھ میٹھا پیش کرتے ہیں۔
میری بیوی نے آج اچانک بغیر کسی وجہ کے پکوڑے بنا دیے اور میں نے یہ اٹھا کر آپ کے سامنے رکھ دیے‘ اس نے پہلو بدلا اور بولا‘ میں نے سکردو میں چند لوگوں کو دودھ والی چائے کے ساتھ یہ چیز (پکوڑے) کھاتے دیکھا تھا‘ میں نے اس وقت سوچا تھا میں اگر دوبارہ یہاں آیا تو میں یہ ضرور ٹرائی کروں گا‘ آپ کے گھر آتے ہوئے بھی میں یہی سوچ رہا تھا‘ آپ نے جب یہ دونوں چیزیں میرے سامنے رکھیں تو میں حیران رہ گیا اور میں نے سوچا‘ یہ محض اتفاق ہے یا پھرآپ لوگ جادوگر ہیں‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’یہ محض اتفاق ہے‘‘ اس نے بھی جواب میں قہقہہ لگایا اور اس کے بعد جی بھر کر پکوڑے انجوائے کیے۔
میرے ایک دوست صدقے اور خیرات کے معاملے میں بڑا کھلا دل رکھتے ہیں‘ یہ روزانہ صدقہ بھی کرتے ہیں اور خیرات بھی دیتے ہیں‘ میں نے ان سے ایک دن وجہ پوچھی تو ان کا جواب تھا میں بچپن سے انتہائی کنجوس تھا‘ میں کسی کو پانی کا گلاس تک پلانے کے لیے راضی نہیں ہوتا تھا‘ آج سے سات سال قبل میری رقم کسی کے پاس پھنس گئی‘ میں نے دفتر میں بیٹھے بیٹھے سوچا اگر مجھے یہ رقم مل گئی تو میں اس میں سے دس فیصد اﷲ کی راہ میں دے دوں گا‘ مجھے اگلے ہی دن رقم مل گئی‘ میں کنجوس تھا لہٰذا میں وعدے سے پھرنے لگا لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔
میرا کلرک میرے پاس آیا اور اس نے کہا‘ سر میں نے اپنی بیٹی کی یونیورسٹی کی فیس ادا کرنی ہے‘ آپ مجھے ایڈوانس دے دیں اور بعدازاں یہ رقم تھوڑی تھوڑی کر کے میری تنخواہ سے کاٹ لیجیے گا‘ میں نے برا سا منہ بنا کر اس سے پوچھا تمہیں کتنی رقم چاہیے؟ اس نے جیب سے فیس چالان نکال کر میرے سامنے رکھ دیا‘ اس پر 52 ہزار چار سو تین روپے لکھے تھے اور یہ رقم بالکل اتنی تھی جتنی میں نے صدقہ کرنی تھی‘ میں نے اسے پیغام ربانی سمجھا اور فوری طور پر اسے ادائیگی کر دی‘ میں نے اگلی مرتبہ بیس ہزار روپے میز پر رکھے اور کسی ضرورت مند کا انتظار کرنے لگا۔
میرے پاس اس دن ایک لڑکی آئی‘ اسے اپنی والدہ کی دوا کے لیے بیس ہزار روپے چاہیے تھے‘ میں نے نوٹ اسے تھما دیے اور اس کے بعد میں روزانہ جتنے پیسے سوچتا ہوں میرے پاس اتنا ہی ضرورت مند آ جاتا ہے سو چل سو چل‘ اﷲ دے رہا ہے اور میں اس کے دیے ہوئے میں سے دیتا چلا جا رہا ہوں۔
میرے ایک پرانے دوست ہیں حکیم بابر‘ یہ لاٹری اور پرائز بانڈ کے ایکسپرٹ ہیں‘ ان کا ہمیشہ پرائز بانڈ اور لاٹری نکلتی ہے‘ میں نے ان سے ایک دن اس خوش نصیبی کی وجہ پوچھی تو یہ ہنس کر بولے ’’میں پرائز بانڈ اور لاٹری کا ایک پیسہ اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتا‘ میں یہ ساری رقم ضرورت مندوں میں بانٹ دیتا ہوں چناں چہ جتنے زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں میرا اتنا ہی بڑا بانڈ نکل آتا ہے اور میں یہ رقم ان میں تقسیم کر دیتا ہوں‘میں نے پوچھا اور اگر آپ کے پاس بانڈ نہ ہو تو پھر کیا کرتے ہیں؟ ان کا جواب تھا آپ تھوڑا صبر کر لیں میں ابھی بتاتا ہوں۔
ہم باتیں کرنے لگے‘ آدھ گھنٹے بعد کسی خاتون کا فون آ گیا‘ اس کی بیٹی کی شادی تھی‘ اسے اڑھائی لاکھ روپے چاہیے تھے‘ حکیم بابر نے خاتون سے کہا‘ آپ شام کو آ کر میرے مطب سے پیسے لے جایے گا‘ میں نے حکیم بابر سے پوچھا‘ کیا آپ کے پاس اڑھائی لاکھ روپے ہیں؟ یہ ہنس کر بولے ’’نہیں ہیں لیکن اﷲ نے اگر ضرورت مند بھیجا ہے تو یہ اب پیسے بھی بھیج دے گا‘‘۔
ہمارے بیٹھے بیٹھے حکیم بابرکو ان کے ملازم کا فون آیا اور اس نے کہا‘ سر ہمیں کوئٹہ سے ایک بڑا آرڈر آ رہا ہے‘ یہ لوگ منہ مانگی قیمت پر فوری ڈیلیوری چاہتے ہیں‘ حکیم نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور پھر سیلز مین سے کہا‘ تم ان سے اڑھائی لاکھ روپے اضافی لے کر ڈیلیوری دے دو‘ حکیم بابر نے اس کے بعد میری طرف دیکھ کر کہا ’’کیوں پھر آپ کو بات سمجھ آ گئی؟‘‘
میں نے ہاں میں گردن ہلا دی‘ مجھے اس دن پتا چلا وسائل کا دارومدار طلب پر ہوتا ہے‘ انسان کی طلب جتنی سچی ہوتی ہے اﷲہ تعالیٰ اتنے ہی وسائل پیدا کر دیتا ہے‘ آپ کو وہی ملتا ہے جو آپ قدرت سے مانگتے ہیں‘ مریض شفاء مانگے گا تو اسے شفاء مل جائے گی‘ غریب خوش حالی مانگے گا تو اسے خوش حالی مل جائے گی‘ علم کے طالب کو اس کی طلب علم کے سمندر تک لے جائے گی‘ کام یابی کی تڑپ انسان کو ناکامی کے گڑھے سے باہر لے آئے گی‘ سکون کی خواہش عام سے انسان کو مہاتما بدھ بنا دے گی اور طاقت کی تمنا بہرحال انسان کی کم زوری پر غالب آ جائے گی‘ اﷲ کا نظام انسان کی خواہش‘ اس کی طلب اور اس کی تڑپ سے ایکٹو ہوتا ہے‘ آپ اﷲ سے مانگتے جائیں اور پھر کوشش کرتے جائیں‘ قدرت کے دروازے بہرحال کھل جاتے ہیں۔
میری ٹیم نے چند دن قبل جنوبی کوریا میں موجود ایک صاحب کے ساتھ میرا پرسنل سیشن بک کیا‘ میں نے جب آن لائین ان سے گفتگو شروع کی تو میں ان کی کہانی سن کر حیران رہ گیا‘ یہ انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ بچپن سے اپنے خاندان کو غربت سے نکالنا چاہتے تھے‘ یہ اسلام آباد میں جس شخص کے ساتھ کام کرتے تھے اسے کورین زبان آتی تھی‘ یہ فالتو وقت میں کورین زبان سیکھنے لگے‘ یہ جب پوری طرح رواں ہو گئے تو انھوں نے آن لائین ایک کورین کمپنی میں اپلائی کر دیا‘ ان کا انٹرویو ہوا‘ انھوں نے کورین زبان میں جواب دیے‘ یہ کام یاب ہو گئے اور آج ان کا پورا خاندان غربت سے باہر آ چکا ہے‘ یہ اب امریکا شفٹ ہونا چاہتے ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ جنوبی کوریا سے امریکا کیسے جائیں گے؟
ان کا جواب تھا ’’میں جیسے اوکاڑہ سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے کوریا آیا اسی طرح امریکا چلا جائوں گا‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر بھی آخر فارمولا کیا ہوگا؟‘‘ انھوں نے ہنس کر جواب دیا ’’میں تین سال سے اﷲ سے امریکا کی شہریت مانگ رہا ہوں‘ مجھے یقین ہے اﷲ مجھے یہ بھی دے دے گا‘‘ میں نے ان سے اتفاق کیا‘ کیوں؟ کیوں کہ میں بھی سیکڑوں مرتبہ تجربہ کر چکا ہوں‘ اﷲ مانگنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا‘ اﷲ کے دربار میں انکار ہے ہی نہیں بس طلب سچی اور تڑپ کھری ہونی چاہیے‘ قدرت انسان کو کبھی مایوس نہیں کرتی۔