مجھے دو ہفتے قبل ایک دوست نے حاجی شکیل کے بارے میں بتایا انھیں آپ کی موٹی ویشن کی ضرورت ہے‘ آپ ان سے مل لیں‘ میری اس سے قبل حاجی شکیل سے صرف دو ملاقاتیں ہوئی تھیں‘ یہ میاں نواز شریف کے 35 سال پرانے خدمت گزار ہیں‘ میاں صاحب پہلی مرتبہ چیف منسٹر بنے تو یہ ان کے ساتھ وابستہ ہوئے اور پوری زندگی ان کی خدمت میں گزار دی‘یہ میاں صاحب کے مزاج شناس بھی ہیں۔
ان کا دماغ پڑھ لیتے ہیں‘یہ جانتے ہیں میاں صاحب کو کس وقت کیا چاہیے اور یہ کس بات پر خفا یا ناراض ہیں یا یہ کس وقت کون سے کپڑے پہنیں گے‘ کیا کھائیں گے اور کس سے ملاقات کریں گے اور کس سے بچ کر رہیں گے وغیرہ وغیرہ‘ آزاد کشمیر کے ساتھ تعلق ہے‘ لاہور میں نوکری تلاش کرتے کرتے میاں صاحب کے گھر پہنچ گئے۔
یہ وزیراعلیٰ بنے تو انھوں نے انھیں پنجاب حکومت میں ملازم کرا دیا‘ یہ اس کے بعد ان کے ساتھ ساتھ رہے‘ میری 2007میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی‘ دوسری ملاقات 2018 میں میاں نواز شریف کی قید کے دوران ہوئی‘ یہ روزانہ جیل میں انھیں کھانا اور کپڑے پہنچاتے تھے‘ میاں صاحب نومبر 2019میں ملک سے باہر چلے گئے تو حاجی شکیل سے بھی رابطہ ختم ہو گیا۔
اب دوست نے بتایا تو میں نے تھوڑی سی تحقیق کی ‘ پتا چلا عمران خان حکومت نے حاجی شکیل کی تنخواہ بند کر دی تھی‘ یہ اسی بندش کے دوران ریٹائر ہو گئے‘ حکومت نے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی پنشن بھی روک لی چناں چہ یہ ساڑھے چار برسوں سے تنخواہ کے بغیر گزارہ کر رہے ہیں‘ دوسرا موجودہ وزراء کا بھی ان کے ساتھ رویہ مناسب نہیں ہے۔
وہ لوگ جو میاں صاحب کی موجودگی میں حاجی صاحب‘حاجی صاحب کہتے نہیں تھکتے تھے وہ اب ان سے ملنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں‘ یہ ایک وفاقی وزیر سے ملاقات کے لیے گئے ‘ یہ باہر ہی بیٹھے رہے اور وزیر نے انھیں اندر تک بلانے کی زحمت نہیں کی چناں چہ یہ چپ چاپ واپس آگئے۔
دوسرے وزیر سے انھوں نے اپنے بیٹے کا ایئرپورٹ کارڈ ری نیو کرنے کی درخواست کی مگر وہ یہ درخواست کانوں میں مار کر چلا گیا‘ یہ دل گرفتہ ہو گئے اور یہ اس کے بعد ملاقات کے لیے کسی کے پاس نہیں گئے‘ یہ میاں نواز شریف کوبے تحاشا مس بھی کرتے ہیں لہٰذا ڈپریشن کا شکار ہیں‘ میں نے یہ تفصیلات جان کر انھیں فون کیا اور چائے کی دعوت دے دی‘ یہ دوسرے دن میرے پاس آگئے۔
میں نے ان سے ڈرتے ڈرتے تنخواہ اور پنشن کے بارے میں پوچھا‘ میرا خیال تھا میں محسن نقوی صاحب سے درخواست کر کے ان کا یہ مسئلہ حل کرا دوں گا مگر ان کے جواب نے مجھے حیران کر دیا‘ ان کا کہنا تھا رزق کا ذمے دار اﷲ تعالیٰ ہے‘ وہ جب چاہے گا میرا مسئلہ اس دن حل ہو جائے گا‘ آپ پلیز کسی سے میری سفارش نہ کیجیے گا‘ میں نے گزارے کا پوچھا تو ان کا جواب تھا ’’الحمد للہ میرا بیٹا اور بیٹی برسر روزگار ہیں۔
ان کی تنخواہوں سے بہت اچھا گزارہ ہو جاتا ہے‘‘ مجھے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں‘ میں نے وزراء کے رویے کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا ’’میری کسی سے کوئی شکایت‘ کوئی گلہ نہیں‘ یہ سب وقت وقت کی باتیں ہیں‘ وہ وقت نہیں رہا تو یہ بھی نہیں رہے گا‘‘ میں نے اصرار کیا مگر انھوں نے وزراء کا نام بتانے سے انکار کر دیا‘ میں بار بار پوچھ کر ان کی خود داری کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا تھا چناں چہ میں نے موضوع میاں نواز شریف کی عادتوں کی طرف موڑ دیا‘ حاجی شکیل خوش ہوگئے اور یہ اس خوشی میں بولتے چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا‘ میاں صاحب ہر وقت باوضو رہتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت کر تے رہتے ہیں‘ میں ان کے لیے پاکٹ سائز کا قرآن مجید جیب میں رکھتا تھا‘ یہ جب بھی کام کے دوران میری طرف دیکھتے تھے ‘ میں فوراً قرآن مجید ان کی طرف بڑھا دیتا تھا اور یہ قرآن مجید کو چوم کر تلاوت شروع کر دیتے تھے۔
ان کے ساتھ رہ کر میں بھی ہر وقت باوضو رہنے لگا اور قرآن مجید کا وہ نسخہ اس وقت بھی میری جیب میں ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’میرا خیال ہے میاں صاحب بے انتہا صفائی پسند ہیں‘‘ یہ فوراً بولے ’’بے انتہا‘ کمرے یا آفس میں جس جگہ گرد ہوگی۔
ان کی نظریں سیدھی وہاں جائیں گی‘ میں نے کبھی انھیں اپنے بیڈروم میں جوتا لے کر جاتے نہیں دیکھا‘ یہ ہمیشہ جوتے باہر اتار کر اپنے بیڈ روم میں جاتے ہیں‘ کپڑوں کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں‘میں نے انھیں کبھی گندے کپڑوں میں نہیں دیکھا‘ شیو کے بغیر کمرے سے نہیں نکلتے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ زیادہ کھاتے ہیں؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’یہ ان کے بارے میں پروپیگنڈا ہے‘ میں نے انھیں کبھی نہاری اور پائے کھاتے نہیں دیکھا‘ یہ آلو گوشت پسند کرتے ہیں۔
یہ سخت غصے میں بھی کسی سے بدتمیزی نہیں کرتے بس ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے‘ عاجزی اور تمیز بہت زیادہ ہے‘ ملازموں کو بھی آپ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں‘ مجھے ان کی وجہ سے خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کے اندر تک جانے کا موقع ملا‘ یہ میرے جیسے شخص پر ان کی خاص مہربانی تھی ورنہ ملازموں پر کون اتنی مہربانی کرتا ہے۔‘‘
میں ان سے مزید پوچھنا چاہتا تھا مگر حاجی شکیل نے میرا انٹرویو شروع کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’کیا آپ کی لندن میں میاں صاحب سے ملاقات ہوئی؟‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا ’’جی ہاں دو ملاقاتیں ہوئیں‘‘ انھوں نے پوچھا ’’کیا آپ کو میاں صاحب میں کوئی فرق محسوس ہوا؟‘‘ میں نے ذرا سا سوچ کر جواب دیا ’’میاں صاحب اب مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
میرا میاں نواز شریف کے بارے میں پرانا تاثر ہے یہ شخص بہت گہرا ہے‘ یہ جتنا شکل سے بھولا بھالا اور سیدھا محسوس ہوتا ہے یہ اندر سے اتنا ہی سمجھ دار ہے‘آپ خود سوچیں یہ اگر گہرے نہ ہوتے تو کیا یہ موٹروے سے لے کر سی پیک تک بڑے بڑے پروجیکٹ مکمل کرتے اور وہ بھی اس حالت میں کہ انھیں کوئی بھی دور ٹک کر پورا نہیں کرنے دیا گیا‘ یہ ہر دور میں اپنی ٹوپی سنبھالتے رہے مگر یہ اس کے باوجود ڈیلیور کر گئے لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا پاکستان سے اگر میاں نواز شریف کے کام نکال دیے جائیں تو باقی کچھ نہیں بچتا بس ان میں ایک خرابی ہے۔
یہ بے لچک ہیں‘ یہ ہر بار فوج سے ٹکرا جاتے ہیں اور پھر سیڑھی سے پھسل کر ننانوے سے صفر پر آ جاتے ہیں‘ اس کی بڑی وجہ ان کے اردگرد موجود لوگ ہیں‘ یہ ہر بار خود کو تین چار لوگوں تک محدود کر لیتے ہیں اور یہ لوگ انھیں مروا دیتے ہیں مگر میرا خیال ہے یہ اگر اس بار آئے تو شاید یہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔‘‘
حاجی شکیل ہنسے اور مجھ سے پوچھا ’’آپ یہ دعویٰ کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’میاں نواز شریف واقعی گہرے ہو گئے ہیں‘یہ اب پہلے سے زیادہ اپنے تاثرات چھپا لیتے ہیں‘ میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں۔
میں پچھلے سال اپریل میں ان سے ملا تو یہ مجھ سے میرے سفروں کے بارے میں پوچھنے لگے‘ میں نے انھیں بتایا‘ میں تبت بھی گیا ہوا ہوں‘ انھوں نے اس میں گہری دل چسپی لی اور مجھ سے پوچھا‘ لہاسا کتنی بلندی پر ہے؟ میں نے جواب دیا‘ دس ہزار میٹر‘ انھوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پوچھا‘ دس ہزار میٹر یا فٹ‘ میں نے کہا‘ میٹر‘ میاں نواز شریف نے اس پر کوئی تاثر نہیں دیا اور بات بھوٹان کی طرف موڑ دی‘‘۔
حاجی شکیل حیرت سے میری طرف دیکھ کر بولے ’’مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’یہ ایک صحافیانہ واردات تھی‘ ہم صحافی دوسروں کو انگیج کرنے کے لیے عموماً کوئی ایسی سویپنگ اسٹیٹمنٹ دے دیتے ہیں جس کے بعد دوسرا شخص بحث شروع کر دیتا ہے اور یوں ہمیں لکھنے اور بولنے کا مٹیریل مل جاتا ہے۔
میرے دعوے میں دس ہزار میٹر کا فقرہ اہم تھا‘ دنیا کا بلند ترین مقام ماؤنٹ ایوریسٹ ہے اور اس کی بلندی بھی 8850میٹر ہے لہٰذا دس ہزار میٹرکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا‘ تبت کی بلندی دس ہزار فٹ سے لے کر پندرہ ہزار فٹ ہے تاہم وہاں کی فیلنگ دس ہزار میٹر (30 ہزار فٹ) جیسی ہے‘ آپ اگر جہاز میں سوار ہوں اور اگر فلائٹ میں اچانک آکسیجن کم ہو جائے تو کیا ہو گا؟ تمام مسافروں کی ناک سے نکسیر پھوٹ جائے گی اور ان کے سر گھوم جائیں گے‘ تبت میں بھی یہی حالات ہوتے ہیں لہٰذا اسے 10 ہزار میٹر کی فیلنگ کہا جاتا ہے۔
میرا خیال تھا میاں صاحب میری اسٹیٹمنٹ کو چیلنج کریںگے اور یوں بات چل پڑے گی مگر انھوں نے میری بات سنی اور کوئی کراس کوئسچن نہیں کیا‘یہ اسے ویل لیفٹ کر گئے‘‘ حاجی شکیل نے ہنس کر کہا ’’یہ ان کی پرانی عادت ہے‘ یہ بحث میں نہیںپڑتے بس چپ چاپ سنتے رہتے ہیں‘‘ میں نے بتایا ’’دوسرا واقعہ ستمبر 2022کی ملاقات میں پیش آیا‘ اگست میں ایوان صدر میں جنرل باجوہ کی عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی‘ میں ستمبر میں میاں صاحب کے آفس میں ان کی کھانے کی میز پر بیٹھا تھا۔
ان کے ایک ساتھی نے پوچھا‘ جنرل باجوہ اور عمران خان کی ملاقات کا کیا نتیجہ نکلا؟ میں نے جواب دیا’’ میری اطلاع کے مطابق جنرل باجوہ اور عمران خان میں کوئی ملاقات نہیں ہوئی‘‘ وہ صاحب ڈٹ گئے اور انھوں نے ملاقات کی تفصیل بتانا شروع کر دی‘ دوسری طرف میں بھی ڈٹ گیا‘ہماری بحث شروع ہو گئی۔
میرا خیال تھا میاں نواز شریف درمیان میں بول پڑیں گے اور یہ ملاقات بھی کنفرم کر دیں گے اور اپنا ردعمل بھی دے دیں گے لیکن یہ بے تاثر چہرے کے ساتھ خاموشی سے ہماری گفتگو سنتے رہے اور آخر میں جیب سے فون نکال کر ہمیں غالب کے شعر سنانے شروع کر دیے جس سے مجھے محسوس ہوا یہ بدل گئے ہیں‘ یہ ہر قسم کی واردات چپ چاپ برداشت کر جاتے ہیں‘‘ حاجی شکیل نے قہقہہ لگایا اور یہ دیر تک ہنستے چلے گئے۔