میں پچھلے دنوں ایک نوجوان لڑکی کی ویڈیو دیکھ رہا تھا‘ وہ زمان پارک کے سامنے چیئرمین پی ٹی آئی کے نعرے لگا رہی تھی‘ کسی یوٹیوبر نے اس کا انٹرویو شروع کر دیا‘ یوٹیوبر نے اس سے پوچھا ’’ملک میں پی ٹی آئی ساڑھے تین سال حکمران رہی‘ اس دوران خان صاحب نے کیا کمال کیا تھا؟‘‘
لڑکی نے غصے سے اس کی طرف دیکھ کر کہا ’’ہمارے خان صاحب نے سینکڑوں ایسے کام کیے تھے جو ملک میں اس سے پہلے نہیں ہوئے‘‘ یوٹیوبر نے ہنس کر پوچھا ’’مثلاً‘‘ وہ لڑکی بولی ’’مثلاً خان صاحب نے ڈیم بنائے تھے‘‘ یوٹیوبر نے فوراً کہا ’’کیا آپ ان میں سے کسی ایک ڈیم کا نام بتا سکتی ہیں؟‘‘ لڑکی نے فوراً جواب دیا ’’ہاں ہاں کیوں نہیں‘ خان صاحب نے کالا باغ ڈیم بنایا تھا‘‘ یہ سن کر یوٹیوبر کے ساتھ ساتھ میری بھی ہنسی نکل گئی مگر یہ واقعہ کچھ بھی نہیں تھا‘ اصل واقعہ اس کے بعد پیش آیا تھا‘ میں نے چند دن بعد یہ واقعہ نوجوانوں کی ایک محفل میں سنایا‘
واقعے کے بعد اس پورے ہال میں صرف ایک شخص ہنس رہا تھا اور وہ شخص میں خود تھا جب کہ باقی پورا ہال حیرت سے کبھی مجھے دیکھتا تھا اور کبھی ایک دوسرے کو‘ مجھے اس وقت معلوم ہوا جہالت کے اس بحرظلمات میں وہ لڑکی اکیلی نہیں بلکہ 2000ء کے بعد پیدا ہونے والے 95 فیصد نوجوان اس لڑکی جیسے ہیں‘ یہ سرے سے حقائق سے نابلد ہیں‘ یہ ڈیم کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ ہی انہیں کالاباغ کے بارے میں کچھ علم ہے‘ یہ محض پروپیگنڈے کی کشتیوں میں سوار ہیں اور آنکھیں بند کر کے جہالت کے جھولے میں جھول رہے ہیں اور یہ سکہ بند حقیقت ہے جاہل معاشرے کے تاریخ اور حقائق سے ناواقف لوگوں کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو نو مئی کو پاکستان کے ساتھ ہوا‘ آپ آج بھی پی ٹی آئی کے کسی نوجوان سے پوچھ لیں وہ حیرت سے جواب دے گا’’ ہم نے آخر کیا جرم کر دیا‘ ہم نے بس چند عمارتیں ہی تو جلائی تھیں‘ اس میں مائینڈ کرنے والی کیا بات تھی؟‘‘
ہم اگر زندہ ہیں اور ہم اگر قوم بھی ہیں تو پھر ہمیں اب کھلے دل کے ساتھ نو اور دس مئی کے واقعات کا تجزیہ کرنا ہوگا تاکہ ہم مستقبل میں ایسے خوف ناک واقعات سے بچ سکیں‘ یہ حقیقت ہے حادثہ ایک دم نہیں ہوتا زمانہ برسوں اس کی پرورش کیا کرتا ہے اور یہ حادثہ بھی اچانک نہیں ہوا تھا‘ ہم نے اسے بھی باقاعدہ پالا تھااور ہم نے اگر اب بھی وجوہات تلاش کر کے ان کا تدارک نہ کیا تو ملک میں 9مئی بار بار آئیں گے اور ہر بار ماضی سے زیادہ تباہی آئے گی‘
ہمیں آج یہ ماننا ہوگا اس حادثے کی بڑی وجہ بے مہار نوجوان ہیں‘ دنیا میں 2000ء کے بعد سوشل میڈیا‘ سمارٹ فون اور ٹیبلٹ نے جنم لیا تھا‘ ہماری ایک پوری نسل نے اس دور میں آنکھ کھولی ‘ والدین نے پیٹ کاٹ کر ان کے ہاتھ میں ٹیبلٹ اور سمارٹ فون دے دیا اور نوجوان سوشل میڈیا کے جھوٹ کے ساتھ جڑتے چلے گئے‘ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا سوشل میڈیا جہالت کا بحر بے کراں ہے‘ اس کا 95 فیصد مواد جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے اور ہماری قوم نے اس جھوٹ میں گالی‘ بے عزتی اور نفرت بھی ملا دی اور یوں سوشل میڈیا ایپس نفرت اور جہالت کی ایک ایسی معجون بن گئیں جس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی‘
دنیا میں سب سے کم کتابیں پاکستان میں پڑھی جاتی ہیں جب کہ اخبارات بینی کا حال یہ ہے ملک میں اخبار بند بھی ہو رہے ہیں اور سکڑ بھی رہے ہیں اور کسی کو ذرا بھی ملال نہیں چناں چہ آپ پھر خودفیصلہ کیجیے عوام نے معلومات اور عقل کہاں سے لینی تھی؟ اس گیپ کو سوشل میڈیا نے خوب بھرا اور نتیجہ پھر پوری دنیا کے سامنے ہے۔ دوسرا فیکٹر چیئرمین پی ٹی آئی ہیں‘ ہمیں انہیں داد دینی ہو گی یہ ملک میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے واقف پہلے لیڈر تھے‘ خان صاحب نے 2000ء کے بعد صرف تین سیکٹرز میں کام کیا اور کمال کر دیا‘
انہوں نے ڈی جے کے ساتھ تقریر کرنا سیکھی‘ گانے بنوائے‘ ڈی جے بٹ ہائر کیا اور پوری انرجی کے ساتھ اندھا دھند بولنا سیکھ لیا‘ اس فیلڈ میں پوری سیاسی لاٹ میں ان کا کوئی حریف نہیں تھا‘ صرف مریم نواز نے ان کا مقابلہ کیا مگر یہ بھی تاخیر کے ساتھ میدان میں اتریں اور بار بار مصلحت کا شکار بھی ہوتی رہیں‘نوجوانوں کو خان صاحب کا یہ انداز بھا گیا‘ خان کا دوسرا کمال فوج تھی‘ یہ فوج کو باور کرانے میں کام یاب ہو گئے تھے ایٹم بم کے بعد میں آپ کا سب سے بڑا اثاثہ ہوں اور فوج نے انہیں اپنا اثاثہ بھی مان لیا اور خان صاحب کا تیسرا کمال سوشل میڈیا تھا‘ پی ٹی آئی نے پچھلے 15برسوں میں صرف ایک فیلڈ میں کھل کر سرمایہ کاری کی اور وہ تھی سوشل میڈیا‘ یہ اقتدار میں آنے کے بعد اس شعبے میں ڈیڑھ ارب روپے ماہانہ خرچ کرتے رہے‘
فوج نے بھی اس معاملے میں ان کی بھرپور مدد کی‘پارٹی کو نئے اینکرز اور یوٹیوبرز بھی بنا کر دیے گئے جب کہ مخالفت کرنے والے اینکرز اور یوٹیوبرز کو جسمانی‘ ذہنی اور فنی رگڑا لگایا جاتا تھا‘ انہیں گالی سکواڈ کے حوالے کر دیا جاتا تھا اور یہ لوگ اس کی ماں بہن ایک کر دیتے تھے‘ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی مہربانی سے الیکٹرانک میڈیا میں سے تین چینلز الگ کر کے پی ٹی آئی کے حوالے کر دیے گئے‘ آپ 2011ء سے 2022ء تک کے اعدادوشمار اکٹھے کر لیں‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ملک میں گیارہ بارہ برسوں میں سات کروڑ لوگوں کو صرف ایک چینل دکھایا گیا اور وہ چینل خان صاحب کو دن رات مسیحا بنا کر پیش کرتا رہا‘ آپ اگر 2011ء سے 2013ء تک سوشل میڈیا کا تجزیہ بھی کریں تو آپ کو علم ہو گا ان 12 برسوں میں آصف علی زرداری‘
شریف فیملی اور مولانا فضل الرحمن کو چور‘ ڈاکو‘ ملک دشمن اور عام آدمی کے مسائل کی وجہ قرار دیا جاتا اور حقائق‘ تاریخ اور علم سے محروم نوجوان اس پروپیگنڈے کو حقیقت مانتے چلے گئے چناں چہ آج آپ کسی نوجوان سے میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے بارے میں پوچھ لیں‘ آپ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ اس کے بعد اس سے شیخ رشید‘ شاہ محمود قریشی‘ فواد چودھری‘ غلام سرور خان‘ عمران اسماعیل‘ علی زیدی اور عامر کیانی جیسے پارٹی بدل سیاست دانوں کے بارے میں پوچھ لیں یہ انہیں خلیفہ سے کم اہمیت نہیں دیں گے اور آپ نوجوانوں سے پی ٹی آئی کے دور کے بارے میں بھی پوچھ لیں یہ اسے ملکی تاریخ کا شان دار ترین زمانہ قرار دیں گے‘ آپ اس کے جواب میں بے شک ’’پٹ مریں‘‘ مگر یہ نہیں مانیں گے اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا جنرل مشرف کے بعد ملک میں ایک ایسی نسل نے جنم لیا تھا جسے ریاست کے ہاتھ نہیں لگے تھے‘ یہ لوگ ریاست کے وجود اور طاقت دونوں سے نابلد تھے‘ یہ پولیس‘ عدالتوں‘ ایجنسیوں اورسیاہ ڈالے کے وجود ہی سے واقف نہیں تھے‘ رہی سہی کسر تحریک لبیک کی کالز نے پوری کر دی‘ علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے صاحب زادے سعد رضوی کی کالز نے ملک کی چولیں ہلا دیں‘ نوجوانوں نے یہ بھی دیکھا گھیرائو جلائو اور قتل وغارت گری کے باوجود حکومت نے انہیں سلام کر کے گھر بھجوا دیاہے تو یہ بھی ریاست کو مذاق سمجھ بیٹھے اور اس کے ساتھ باقاعدہ ٹھٹھا کرنے لگے۔
یہ حالات کا ماضی تھا اور ماضی کے بعد ہرحال میں حال آتا ہے‘ پی ٹی آئی کی حکومت بہرحال ختم ہوئی اور خان صاحب اپنی شہرت اور حماقت کے زعم میں آگے بڑھتے رہے‘ خان کی پہلی حماقت قومی اسمبلی سے استعفے تھا‘ یہ اگر عدم اعتماد کو قبول کر لیتے‘ اسمبلی میں بیٹھے رہتے‘ اپوزیشن لیڈر بن جاتے تو یقین کریں یہ تین ماہ بعد دوبارہ وزیراعظم ہوتے یا ملک میں اب تک الیکشن ہو چکے ہوتے مگر انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ بھی دے دیا اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر بھی لے لی‘ یہ اس ٹکر بازی میں روزانہ کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہے اور میں آج جب حالات کا تجزیہ کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے انہیں جان بوجھ کر آگے بڑھنے کا موقع دیا جاتا رہا تھا اور یہ اس موقعے کو اپنی کام یابی سمجھتے رہے تھے‘
اس دوران انہوں نے عدلیہ میں بھی اپنا گروپ بنا لیا تھا اور ریاست کا ایک حصہ بھی ان کا ساتھ دے رہا تھا اور سب سے بڑھ کر بشریٰ بی بی کے موکلات ان کے ساتھ کھڑے تھے اور ظاہر ہے اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا اور یہ نو مئی کی شکل میں نکلا اور پھر ان کے ساتھ وہ ہوگیا جو نپولین بوناپارٹ اور ہٹلر کے ساتھ روس میں ہوا تھا‘ یہ بھی جال میں پھنس گئے اور یہ اب بے بسی سے دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں اور مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں جب کہ بشریٰ بی بی سمیت تمام روحانی‘ سیاسی اور سفارتی طاقتیں ان کا ساتھ چھوڑ چکی ہیں بس ان کی گرفتاری اور ملٹری کورٹ میں ان کا مقدمہ چلنا باقی ہے اور یہ کام بھی اسی ماہ ہو جائیں گے اور اس کے بعد راوی خاموش ہو جائے گا لیکن سوال پھر وہی ہے کیا ہم اس حادثے سے کوئی سبق سیکھیں گے‘
کیا ہم من حیث القوم توبہ تائب ہوں گے‘ کیا ہم ملک کو پٹڑی پر واپس لانے کا فیصلہ کریں گے اور کیا ہم نے غلطیوں کے ازالے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر شاید اصلاح کی گنجائش موجود ہے ورنہ دوسری صورت میں احساس کا یہ دورانیہ صرف اڑھائی سال پر محیط ہو گا‘ 2025ء طلوع ہوا نہیں اور ہم ایک بار پھر اس بیماری کا شکار ہوئے نہیں‘ خان صاحب یا علامہ سعد رضوی دوبارہ سڑکوں پر ہوں گے اور قوم حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے ’’واٹ اے کنٹری‘‘۔